×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / موسم اطاعت کی آمد سے پہلے تیاری کی اہمیت

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

تمام تعریفیں اللہ کے لیۓ ہیں جو دونوں جہانوں کا رب ہيں اور میں درود وسلام پیش کرتا ہوں اس کے بیجھے ہوۓ رسول حضرت محمد اور ان کے صحابہ اور ال پر اور جو ان کی اتباع کرتے ہیں قیامت کے دن تک۔ امابعد۔ اس کائنات رنگ وبو میں ہر فرد مؤمن کے لئے اس بات سے آشنا و باخبر ہونا ضروری ہے کہ اسے صرف اور صرف خدائے وحدہ لا شریک لہ کی بندگی اور عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، کیونکہ زبان الٰہی خود اس بات کا اقرار کررہی ہے کہ :  ﴿وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون﴾ (ترجمہ)  ’’اور میں نے جن و انس کو اپنی بندگی کے لئے ہی پیدا کیا ہے‘‘،  اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :  ﴿الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أےکم أحسن عملا﴾  (ترجمہ)  ’’جس نے موت اور زندگی اس لئے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ بہتر عمل کرتا ہے‘‘،  لہٰذا یہ دنیا عبادت ، آزمائش اور امتحان کا گھرہے ، اس لئے کہ اللہ جل شانہ نے اس میں بندوں کو گونا گوں اور طرح طرح کی تکالیف کا مکلف بنایا ہے ، اور ہمیں تو ایک عظیم الشان مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ مقصد اللہ جل شانہ کی عبادت کرنا ہے ، تو جب تک بندے اس مقصد کو پورا نہ کریں تب تک نہ ان کی زندگی پرسکون اور پر مطمئن ہوسکتی ہے، نہ ان کی آخرت درست ہوسکتی ہے اور نہ ہی ان کے بے کل و بے قرار دلوں کو راحت و تسکین مل سکتی ہے ، لہٰذا زندگی کا مقصد وہ اللہ جل شانہ کی عبادت ہے ، اور یہ صرف انفرادی زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ تمام بنی نوع انسانی کا مقصد ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے لاڈلے نبی حضرت محمد ﷺکو ہدایت ( علم نافع) اور دین حق (عمل صالح) کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی ہر انسان کا فریضہ ہے ، اور یہ بندگی تو اصل میں دلوں کی بندگی ہے کیونکہ یہ دل جب تک اللہ تعالیٰ کے حضور سرافگندہ نہیں ہوتے تب تک انسان کے اٹھنے بیٹھنے ، آنے جانے اور کرنے نہ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہ یہ ایک بے جان عمل ہے ، کیونکہ عبادت کی روح رواں تو دل کی عبادت ہے ، اور یہ اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے ایسی آسان شریعت بنائی ہے جس کے ذریعے وہ اس مقصد کو پا سکتے ہیں ، اب اگر ہم اس عظیم الشان مقصد کی طرف بنظر غور دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اس مقصد کو پانے کے لئے چند ذرائع چند آلات و ادوات ہیں ،اور وہ ظاہر و باطن میں خالص اللہ جل شانہ کے لئے عبادت قلبیہ اور عبادت تامہ ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے اس مشروعہ دین میں کئی طرح کی ظاہری اور باطنی عبادتیں ہیں ، جن کے ذریعے مقصود ربانی حاصل ہوجاتا ہے اور وہ مقصود اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ مثال کے طور پر : ظاہری عبادات کی اصل نماز ہے جو بندے اور رب کے درمیان ایک رابطہ ہے، اسی طرح زکوٰۃ روزہ حج وغیرہ وغیرہ، تو یہ اصول و ارکان کی مانند ہیں جن پر تمام عبادات کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے ، تو اب اگر ہم ان عبادات میں منہمک ہوجائیں تو ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ہم اپنے مقصد (عبادت قلبی ) کو پا رہے ہیں، اسی لئے اگر انسان نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج سے عاجز آجائے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ نہیں ہے ؟ جواب: نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ اب بھی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے ، یہ سب تو وسائل وذرائع ہیں ، اگر وسائل و ذرائع نہیں ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مقصد لغو اور غیر موجود ہے ، لہٰذا ہمیں ان عبادات و شرائع کی طرف اس نظر سے دیکھنا چاہئے کہ یہ سارے وسائل و ذرائع تو ایک عظیم مقصد کے لئے ہیں اور وہ عظیم مقصد عبادت قلبیہ ہے ، اور عبادت قلبیہ عبادت کی کنجی ہے ، اور محبت اس کا بڑا عنوان ہے ، پس عبادت کی عمارت ان دو قلبی ارکان پر کھڑی ہوتی ہے: انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ انتہائی محبت ۔ اوریہ بات بلا شک و شبہ کے ہے کہ اللہ نے اپنی ذات تک کی رسائی کے لئے بہت سارے راستے بنائے یعنی صرف نماز یا صرف زکوٰۃ اورروزے کا راستہ خاص نہیں کیا اب یہ اس کی رحمت نہیں تو اور کیا ہے؟اب ان بہت سارے راستوں میں قرب الٰہی کا ایک راستہ بدنی عبادت کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ایک راستہ مال کے ساتھ، ایک راستہ بندہ اوررب کے درمیان تعلقات کے ساتھ جڑا ہے اورایک راستہ حقوق العباد کے ساتھ جڑا ہے، غرض اس تقسیم کے نیچے کئی قسم کی عبادات شامل ہیں۔ لہٰذا ہم اس بابرکت ماہ کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں طرح طرح کی عبادات کے لئے نفوس(عموما) چاق و چوبند ہوتے ہیں ، اور اس میں انسان دلی اور روحانی طور پرلذت و اطمینان اور راحت و سکون پاتا ہے ، اور نیکیوں کے اس سیزن کے لئے تھوڑی سی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے ، اور وہ تیاری دو طرح سے ہے : (۱) دلی اعتبار سے تیاری اوریہی اس امت کے سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے جیسا کہ معلی ابن الفضل فرماتے ہیں کہ سلف صالحین چھ مہینے بارگاہ الٰہی میں دست بدعا ہوتے تھے کہ وہ رمضان کا مہینہ پالیں ، اور یہی دلی تیاری ہے۔اور دوسری قسم کی تیاری عمل کے اعتبار سے ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اس مہینے کے آنے سے پہلے پہلے عمل صالح کی مشق کرے ، یہاں تک کہ جب یہ مہینہ آجائے تو طاعات الٰہیہ کو بجا لانے پر اس کا جسم عادی ہو چکا ہو، اسی لئے تو سلف صالحین اس ماہ میں کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے ، اور سلف صالحین میں سے تو بعض ایسے بھی تھے جواپنی دکانوں کو اس لئے تالا لگادیتے تھے کہ وہ شعبان کے مہینے میں تلاوت قرآن کے لئے فارغ ہوجائیں ، تو اس طرح جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو طرح طرح کے اعمال صالحہ کے لئے وہ پہلے سے چاق و چوبند ہوتے ۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺنے روزہ مشروع فرمایا کیونکہ آپ ﷺنے کبھی بھی روزے کا مہینہ پورا نہیں کیا، جیسا کہ اماں عائشہ صدیقہ ؓ سے منقول ہے کہ :’’شعبان سے زیادہ میں نے اللہ کے رسول ﷺکو زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔ اور اس کی حکمت وعلت یہی ہے کہ ماہ رمضان کے کے لئے نفوس چاق و چوبند رہے ۔ ہمیں ان سنتوں کو اپنانے اور ان کی معانی سمجھنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ آپ ﷺرمضان کے روزے اس طرح بغیر غایت اور علت کے نہیں رکھتے تھے، بلکہ یہ تو تیاری کہ وہ قسم ہے جس سے نفوس چاق و چوبند رہتے ہیں ۔ اسی طرح فجر ، ظہر اور عشا ء سے پہلے کی سنتیں اسی تیاری یاتکمیل کی ایک قسم ہے ، لہٰذا ہمیں عبادات میں مشغو ل رہنا چاہئے اور اس بابرکت مہینے کے لئے ایسانفس تیار کریں جس نے طاعات الہٰیہ کی خوب مشق کی ہو ، اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اورجس نے اعمال صالحہ کی تیاری کی ہو۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کی مددفرمائے ،اورہمیں ماہ رمضان تک زندگی عطا فرمائے اور اس میں ہمیں اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے  (آمین) أھمیۃالاستعداد لاستقبال مواسم الطاعات.

المشاهدات:2187

تمام تعریفیں اللہ کے لیۓ ہیں جو دونوں جہانوں کا رب ہيں اور میں درود وسلام پیش کرتا ہوں اس کے بیجھے ہوۓ رسول حضرت محمد اور ان کے صحابہ اور ال پر اور جو ان کی اتباع کرتے ہیں قیامت کے دن تک۔

امابعد۔

اس کائناتِ رنگ وبو میں ہر فردِ مؤمن کے لئے اس بات سے آشنا و باخبر ہونا ضروری ہے کہ اسے صرف اور صرف خدائے وحدہ لا شریک لہ کی بندگی اور عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، کیونکہ زبانِ الٰہی خود اس بات کا اقرار کررہی ہے کہ :  ﴿وما خلقت الجنّ والانس الّا لیعبدونِ﴾ (ترجمہ)  ’’اور میں نے جن و انس کو اپنی بندگی کے لئے ہی پیدا کیا ہے‘‘،  اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :  ﴿الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أےّکم أحسن عملا﴾  (ترجمہ)  ’’جس نے موت اور زندگی اس لئے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ بہتر عمل کرتا ہے‘‘،  لہٰذا یہ دنیا عبادت ، آزمائش اور امتحان کا گھرہے ، اس لئے کہ اللہ جلّ شانہ نے اس میں بندوں کو گونا گوں اور طرح طرح کی تکالیف کا مکلّف بنایا ہے ، اور ہمیں تو ایک عظیم الشان مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ مقصد اللہ جلّ شانہ کی عبادت کرنا ہے ، تو جب تک بندے اس مقصد کو پورا نہ کریں تب تک نہ ان کی زندگی پرسکون اور پر مطمئن ہوسکتی ہے، نہ ان کی آخرت درست ہوسکتی ہے اور نہ ہی ان کے بے کل و بے قرار دلوں کو راحت و تسکین مل سکتی ہے ، لہٰذا زندگی کا مقصد وہ اللہ جلّ شانہ کی عبادت ہے ، اور یہ صرف انفرادی زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ تمام بنی نوع ِانسانی کا مقصد ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے لاڈلے نبی حضرت محمد ﷺکو ہدایت ( علمِ نافع) اور دینِ حق (عملِ صالح) کے ساتھ مبعوث فرمایا۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی ہر انسان کا فریضہ ہے ، اور یہ بندگی تو اصل میں دلوں کی بندگی ہے کیونکہ یہ دل جب تک اللہ تعالیٰ کے حضور سرافگندہ نہیں ہوتے تب تک انسان کے اٹھنے بیٹھنے ، آنے جانے اور کرنے نہ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہ یہ ایک بے جان عمل ہے ، کیونکہ عبادت کی روحِ رواں تو دل کی عبادت ہے ، اور یہ اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے ایسی آسان شریعت بنائی ہے جس کے ذریعے وہ اس مقصد کو پا سکتے ہیں ، اب اگر ہم اس عظیم الشان مقصد کی طرف بنظرِ غور دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اس مقصد کو پانے کے لئے چند ذرائع چند آلات و ادوات ہیں ،اور وہ ظاہر و باطن میں خالص اللہ جلّ شانہ کے لئے عبادتِ قلبیہ اور عبادتِ تامّہ ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے اس مشروعہ دین میں کئی طرح کی ظاہری اور باطنی عبادتیں ہیں ، جن کے ذریعے مقصودِ ربّانی حاصل ہوجاتا ہے اور وہ مقصود اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔

مثال کے طور پر : ظاہری عبادات کی اصل نماز ہے جو بندے اور رب کے درمیان ایک رابطہ ہے، اسی طرح زکوٰۃ روزہ حج وغیرہ وغیرہ، تو یہ اصول و ارکان کی مانند ہیں جن پر تمام عبادات کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے ، تو اب اگر ہم ان عبادات میں منہمک ہوجائیں تو ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ہم اپنے مقصد (عبادتِ قلبی ) کو پا رہے ہیں، اسی لئے اگر انسان نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج سے عاجز آجائے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ نہیں ہے ؟ جواب: نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ اب بھی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے ، یہ سب تو وسائل وذرائع ہیں ، اگر وسائل و ذرائع نہیں ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مقصد لغو اور غیر موجود ہے ، لہٰذا ہمیں ان عبادات و شرائع کی طرف اس نظر سے دیکھنا چاہئے کہ یہ سارے وسائل و ذرائع تو ایک عظیم مقصد کے لئے ہیں اور وہ عظیم مقصد عبادتِ قلبیہ ہے ، اور عبادتِ قلبیہ عبادت کی کنجی ہے ، اور محبت اس کا بڑا عنوان ہے ، پس عبادت کی عمارت ان دو قلبی ارکان پر کھڑی ہوتی ہے: انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ انتہائی محبت ۔

اوریہ بات بلا شک و شبہ کے ہے کہ اللہ نے اپنی ذات تک کی رسائی کے لئے بہت سارے راستے بنائے یعنی صرف نماز یا صرف زکوٰۃ اورروزے کا راستہ خاص نہیں کیا اب یہ اس کی رحمت نہیں تو اور کیا ہے؟اب ان بہت سارے راستوں میں قرب الٰہی کا ایک راستہ بدنی عبادت کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ایک راستہ مال کے ساتھ، ایک راستہ بندہ اوررب کے درمیان تعلقات کے ساتھ جڑا ہے اورایک راستہ حقوق العباد کے ساتھ جڑا ہے، غرض اس تقسیم کے نیچے کئی قسم کی عبادات شامل ہیں۔

لہٰذا ہم اس بابرکت ماہ کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ ماہِ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں طرح طرح کی عبادات کے لئے نفوس(عموماََ) چاق و چوبند ہوتے ہیں ، اور اس میں انسان دلی اور روحانی طور پرلذت و اطمینان اور راحت و سکون پاتا ہے ، اور نیکیوں کے اس سیزن کے لئے تھوڑی سی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے ، اور وہ تیاری دو طرح سے ہے : (۱) دلی اعتبار سے تیاری اوریہی اس امت کے سلفِ صالحین کا طریقہ رہا ہے جیسا کہ معلّی ابن الفضل فرماتے ہیں کہ سلفِ صالحین چھ مہینے بارگاہ ِ الٰہی میں دست بدعا ہوتے تھے کہ وہ رمضان کا مہینہ پالیں ، اور یہی دلی تیاری ہے۔اور دوسری قسم کی تیاری عمل کے اعتبار سے ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اس مہینے کے آنے سے پہلے پہلے عملِ صالح کی مشق کرے ، یہاں تک کہ جب یہ مہینہ آجائے تو طاعاتِ الٰہیہ کو بجا لانے پر اس کا جسم عادی ہو چکا ہو، اسی لئے تو سلف ِ صالحین اس ماہ میں کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے ، اور سلفِ صالحین میں سے تو بعض ایسے بھی تھے جواپنی دکانوں کو اس لئے تالا لگادیتے تھے کہ وہ شعبان کے مہینے میں تلاوتِ قرآن کے لئے فارغ ہوجائیں ، تو اس طرح جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو طرح طرح کے اعمالِ صالحہ کے لئے وہ پہلے سے چاق و چوبند ہوتے ۔

اسی لئے اللہ کے رسول ﷺنے روزہ مشروع فرمایا کیونکہ آپ نے کبھی بھی روزے کا مہینہ پورا نہیں کیا، جیسا کہ اماں عائشہ صدّیقہ ؓ سے منقول ہے کہ :’’شعبان سے زیادہ میں نے اللہ کے رسول ﷺکو زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔ اور اس کی حکمت وعلت یہی ہے کہ ماہِ رمضان کے کے لئے نفوس چاق و چوبند رہے ۔

ہمیں ان سنتوں کو اپنانے اور ان کی معانی سمجھنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ آپ ﷺرمضان کے روزے اس طرح بغیر غایت اور علت کے نہیں رکھتے تھے، بلکہ یہ تو تیاری کہ وہ قسم ہے جس سے نفوس چاق و چوبند رہتے ہیں ۔

اسی طرح فجر ، ظہر اور عشا ء سے پہلے کی سنتیں اسی تیاری یاتکمیل کی ایک قسم ہے ، لہٰذا ہمیں عبادات میں مشغو ل رہنا چاہئے اور اس بابرکت مہینے کے لئے ایسانفس تیار کریں جس نے طاعاتِ الہٰیہ کی خوب مشق کی ہو ، اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اورجس نے اعمالِ صالحہ کی تیاری کی ہو۔

اللہ سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کی مددفرمائے ،اورہمیں ماہ ِ رمضان تک زندگی عطا فرمائے اور اس میں ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے  (آمین)

أھمیۃالاستعداد لاستقبال مواسم الطاعات.

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83548 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78516 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72809 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60768 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55159 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52326 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49603 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات48352 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44941 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44253 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف