×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / روزے کا دن عام دنوں سے مختلف ہوتا ہے

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، اللہ اپنے رسول ﷺان کی آل اولاد اور ان کے صحابہ پر درود وسلام اور اپنی رحمتیں نازل فرمائیں! اما بعد۔ روزہ کی غرض وغایت صرف تقوی اللہ (اللہ کا ڈر) ہے ، اور یہی روزے سے غرض و مقصود ہے ، اسی لئے اللہ کا ارشاد گر امی ہے :﴿یا أیھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾ (ترجمہ)  ’’اے ایمان تم پر بھی اسی طرح روزے فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کردئیے گئے تھے (اور اس لئے فرض کئے گئے ) تاکہ تم تقوی حاصل کرو‘‘۔ سوال:  بسا اوقات سائل پوچھتا ہے کہ ’’تقوی کا کیا مطلب ہے‘‘؟ جواب:  ’’تقوی‘‘  اطاعت الٰہی میں مشغول رہنے اور معصیت سے دور رہنے ، اور اللہ کے ثواب میں رغبت رکھنے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہونے کا نام ہے ۔ یہی تقوی کی ایک آسان اور مختصر سی تعریف ہے ، پس وہی شخص متقی و پارسا کہلاتا ہے جو اطاعت الہٰی کو بجا لاتا ہے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے کنارہ کش رہتا ہے ، اور وہ کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کے وقت امید و خوف اور رغبت و رہبت کے درمیان رہتا ہے ، نہ تووہ اس فعل کو عادتا ترک کرتا ہے اور نہ ہی عادتااس کا ارادہ کرتاہے ، نہ تو وہ حرام کردہ چیز کو عادتالوگوں سے حیا کی وجہ سے ترک کرتا ہے اورنہ ہی عادتا لوگوں کی موافقت کی وجہ سے اس واجب کو کرتا ہے ، بل اس کو رغبت و رہبت کے ملے جلے جذبے کے ساتھ کرتا ہے یعنی اللہ کے ہاں نعمتوں کی رغبت رکھتے ہوئے اور اس کے خوف کی وجہ سے ۔یہی وہ عام معنی ہے جس کی وجہ سے اللہ جل شانہ نے روزہ مشروع قرار دیا ہے، اس لئے روزہ دار کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ میں اوراپنے اخلاق و عمل میں اس حکمت کو تلاش کرے تاکہ وہ اجر عظیم کو پالے ۔ پس روزے دار۔۔۔یعنی کھانے پینے سے رکنے والے۔۔۔ تو بہت ہیں لیکن ایک روزے دار اور دوسرے روزے دار کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے ، اور یہ فرق روزہ داروں کے دلوں میں عجزو انکساری ، اخلاص و صدق ، ایمان و برہان اور دلوں کے اندر جو اعمال ہوتے ہیں انکی ترجمانی کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے ، اوریہ جو عمل دل میں قائم ہوا ہے چاہئے کہ وہ جوارح واعضاء کی طرف طرز عمل میں صلاح کی ، عمل میں صدق کی اور برائی اور شر سے دوری کی ترجمانی کرے ، کیونکہ صحیحین میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ :’’روزہ ڈھال ہے ‘‘۔ اور ڈھال سے مراد یہ یہ کہ اس روزرے کی ڈھال سے انسان اپنے آپ کو ہر قسم کی شر و فساد سے بچائے ، اور یہ اسی صورت میں فائدہ دے گا جب روزہ اسی صور ت میں ہو (یعنی ان چیزوں سے ڈھال ہو) جیسا کہ اگر انسان کسی قلعے کے اندر ہو تو وہ قلعہ اس انسان کو شر و فساد اور برے اخلاق سے بچاتا ہے ، اسی لئے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ فحش گوئی اورشوروغل کرے اور نہ ہی جہالت برتے ، اور اگر کوئی شخص اسے گالم گلوچ کرے تو اسے کہے کہ بھائی میں تو روزے سے ہوں‘‘ یعنی اس بات سے روکا گیا ہوں کہ تمہاری طرح گالم گلوچ اور برا بھلا کہوں کیونکہ میں تو روزہ دار ہو ں ، اور یہ اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ روزہ دل کے اندر اس معاملہ کا نام ہے جو عمل کی ترجمانی کرتا ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے آپ کو ہر قسم کے برے اخلاق سے روکے اگرچہ یہ اپنے نفس کے لئے مقام انصاف میں ہو ، اللہ جل شانہ کا ارشاد پاک ہے:  ﴿و ان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ﴾  (ترجمہ)  ’’اگر تم بدلہ لو تو اس طرح بدلہ لو جس طرح تمہارے ساتھ کیاگیا‘‘  ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے :  ﴿و جزاء سئیۃ سئیۃ مثلھا﴾  (ترجمہ)  ‘‘اور کسی برائی کی جزاء اس جیسی برائی ہوتی ہے‘‘۔  اوران جیسے منازعات میں روزہ دار کو بلندی وبرتری کا حکم بھی ہے اور یہ مثل کے ذریعہ بدلہ دینے میں رغبت ہے ، جیسا کہ وہ یہ کہے کہ: ’’ میں روزہ سے ہوں ، اور اس طرح وہ بے وقوفوں کے ساتھ بحث و مباحثہ سے اپنی زبان کو روکتا ہے ، اور اپنے عمل کو برائی میں پڑنے سے روکتا ہے ، (لہٰذا) ضروری ہے کہ ہم میں سے کسی کا روزہ اللہ کے ثواب کے ساتھ ایمان اور صدق یقین کا ترجمان ہو، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ : ’’جس نے ایمان و احتسا ب کی نیت سے روزہ رکھا تو اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے ‘‘، اور اسی کی طرف نے میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے اشارہ کیا تھا کہ لوگوں کے اجروثواب ان کے دلوں میں تصدیق وبرہان کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتے ہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے روزوں میں ان دو خصلتوں کا جائزہ لیں (ایمان اور احتساب کا)۔ اور ایمان اقرار سے ثابت ہوتا ہے ، پس اگر انسان روزے کے وجوب کا اقرار کرے تو ایسا ہے کہ وہ اس کی مشروعیت پر ایمان لے آیا، اور احتسا ب یہ ہے کہ وہ پروردگا ر عالم کے ہاں آخرت کا امیدوار ہو، کیونکہ روزے کا اجروثواب بہت زیادہ ہے ، کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے تحت داخل ہے کہ :  ﴿انما یؤف الصابرون اجرھم بغیر حساب﴾  (ترجمہ)  ’’ بے شک صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا‘‘ ، اور روزہ کے بارے میں(حدیث قدسی میں ) وہ ارشاد باری تعالیٰ ہی کافی ہے جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لئے ہے کہ میں خود اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ اور جس طرف روزہ دارکا التفا ت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سلف صالحین کی ایک جماعت کہتے ہیں کہ:  ’’تمہارے روزہ کا دن تمہارے فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے ، اور یہ اختلاف اعمال میں سستی و ضعف اور برے اخلاق اور واجبات سے پیچھے ہٹنے میں نہیں ہے جس طرح اکثرلوگوں کا حال ہے کہ وہ اپنے نفسانی خواہشات کی اتباع میں لگے میں ہوئے ہیں ، اور روزہ کو بری عادات کو دور کرنے کے لئے ایک موقعہ گردانتا ہے ، اس حجت پہ کہ وہ روزہ سے ہے اور یہ کہ وہ کمزرو اور تھکا ہار اہے ، یہ غلط ہے ، بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ روزہ انسا ن کو اچھے اخلاق ، چستی و پھرتی ، واجبات اور حقوق کی ادائیگی پر ابھارے ، اور وہ اللہ کے لئے اپنے روزے میں اپنی اطاعت کے ساتھ اللہ کے لئے اطاعت میں سے زیادہ اجروثواب ہے کہ وہ روزہ کو تبدیل کرے ، اور وہ اس طرح کہ روزہ کی مشقت انسان کے اندر ضعف پیدا کرتی ہے ، پس اگر وہ اپنے نفس کو ایسے حال میں بھی اللہ کی اطاعت پر ابھارے تو اس میں بہت زیادہ اجر ہے ، جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ان سے ارشاد فرمایا:  ’’تمہارا اجر تمہارے خرچ کرنے اور تمہاری تھکان کی بنسبت ہوگا‘‘ ، یعنی جتنا تم مال خرچ کروگی اور جتنا تم اپنے آپ کو تھکاؤ گی ، اور یہ وہ تھکاوٹ ہے جو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کی جاتی ہے ۔ یہ ان خصلتوں کا مجمل خلاصہ ہے جن میں سے کوئی ایک خصلت بھی روزہ دار سے اسے کے روزہ کے دن نہیں چھوٹنی چاہئے ، اور روزہ کا دن فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے، اور یہ اختلاف نزول کا نہیں ہے بلکہ پاکیزگی ، صلاح ، تقوی اور ایمان کا ہے ۔   و صلی اللہ وبارک و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعینتمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، اللہ اپنے رسول ﷺان کی آل اولاد اور ان کے صحابہ پر درود وسلام اور اپنی رحمتیں نازل فرمائیں! اما بعد۔۔۔ روزہ کی غرض وغایت صرف تقوی اللہ (اللہ کا ڈر) ہے ، اور یہی روزے سے غرض و مقصود ہے ، اسی لئے اللہ کا ارشاد گر امی ہے :﴿یا أیھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾ (ترجمہ)  ’’اے ایمان تم پر بھی اسی طرح روزے فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کردئیے گئے تھے (اور اس لئے فرض کئے گئے ) تاکہ تم تقوی حاصل کرو‘‘۔ سوال:  بسا اوقات سائل پوچھتا ہے کہ ’’تقوی کا کیا مطلب ہے‘‘؟ جواب:  ’’تقوی‘‘  اطاعت الٰہی میں مشغول رہنے اور معصیت سے دور رہنے ، اور اللہ کے ثواب میں رغبت رکھنے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہونے کا نام ہے ۔ یہی تقوی کی ایک آسان اور مختصر سی تعریف ہے ، پس وہی شخص متقی و پارسا کہلاتا ہے جو اطاعت الہٰی کو بجا لاتا ہے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے کنارہ کش رہتا ہے ، اور وہ کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کے وقت امید و خوف اور رغبت و رہبت کے درمیان رہتا ہے ، نہ تووہ اس فعل کو عادتا ترک کرتا ہے اور نہ ہی عادتااس کا ارادہ کرتاہے ، نہ تو وہ حرام کردہ چیز کو عادتالوگوں سے حیا کی وجہ سے ترک کرتا ہے اورنہ ہی عادتا لوگوں کی موافقت کی وجہ سے اس واجب کو کرتا ہے ، بل اس کو رغبت و رہبت کے ملے جلے جذبے کے ساتھ کرتا ہے یعنی اللہ کے ہاں نعمتوں کی رغبت رکھتے ہوئے اور اس کے خوف کی وجہ سے ۔یہی وہ عام معنی ہے جس کی وجہ سے اللہ جل شانہ نے روزہ مشروع قرار دیا ہے، اس لئے روزہ دار کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ میں اوراپنے اخلاق و عمل میں اس حکمت کو تلاش کرے تاکہ وہ اجر عظیم کو پالے ۔ پس روزے دار۔۔۔یعنی کھانے پینے سے رکنے والے۔۔۔ تو بہت ہیں لیکن ایک روزے دار اور دوسرے روزے دار کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے ، اور یہ فرق روزہ داروں کے دلوں میں عجزو انکساری ، اخلاص و صدق ، ایمان و برہان اور دلوں کے اندر جو اعمال ہوتے ہیں انکی ترجمانی کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے ، اوریہ جو عمل دل میں قائم ہوا ہے چاہئے کہ وہ جوارح واعضاء کی طرف طرز عمل میں صلاح کی ، عمل میں صدق کی اور برائی اور شر سے دوری کی ترجمانی کرے ، کیونکہ صحیحین میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ :’’روزہ ڈھال ہے ‘‘۔ اور ڈھال سے مراد یہ یہ کہ اس روزرے کی ڈھال سے انسان اپنے آپ کو ہر قسم کی شر و فساد سے بچائے ، اور یہ اسی صورت میں فائدہ دے گا جب روزہ اسی صور ت میں ہو (یعنی ان چیزوں سے ڈھال ہو) جیسا کہ اگر انسان کسی قلعے کے اندر ہو تو وہ قلعہ اس انسان کو شر و فساد اور برے اخلاق سے بچاتا ہے ، اسی لئے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ فحش گوئی اورشوروغل کرے اور نہ ہی جہالت برتے ، اور اگر کوئی شخص اسے گالم گلوچ کرے تو اسے کہے کہ بھائی میں تو روزے سے ہوں‘‘ یعنی اس بات سے روکا گیا ہوں کہ تمہاری طرح گالم گلوچ اور برا بھلا کہوں کیونکہ میں تو روزہ دار ہو ں ، اور یہ اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ روزہ دل کے اندر اس معاملہ کا نام ہے جو عمل کی ترجمانی کرتا ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے آپ کو ہر قسم کے برے اخلاق سے روکے اگرچہ یہ اپنے نفس کے لئے مقام انصاف میں ہو ، اللہ جل شانہ کا ارشاد پاک ہے:  ﴿و ان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ﴾  (ترجمہ)  ’’اگر تم بدلہ لو تو اس طرح بدلہ لو جس طرح تمہارے ساتھ کیاگیا‘‘  ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے :  ﴿و جزاء سئیۃ سئیۃ مثلھا﴾  (ترجمہ)  ‘‘اور کسی برائی کی جزاء اس جیسی برائی ہوتی ہے‘‘۔  اوران جیسے منازعات میں روزہ دار کو بلندی وبرتری کا حکم بھی ہے اور یہ مثل کے ذریعہ بدلہ دینے میں رغبت ہے ، جیسا کہ وہ یہ کہے کہ: ’’ میں روزہ سے ہوں ، اور اس طرح وہ بے وقوفوں کے ساتھ بحث و مباحثہ سے اپنی زبان کو روکتا ہے ، اور اپنے عمل کو برائی میں پڑنے سے روکتا ہے ، (لہٰذا) ضروری ہے کہ ہم میں سے کسی کا روزہ اللہ کے ثواب کے ساتھ ایمان اور صدق یقین کا ترجمان ہو، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ : ’’جس نے ایمان و احتسا ب کی نیت سے روزہ رکھا تو اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے ‘‘، اور اسی کی طرف نے میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے اشارہ کیا تھا کہ لوگوں کے اجروثواب ان کے دلوں میں تصدیق وبرہان کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتے ہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے روزوں میں ان دو خصلتوں کا جائزہ لیں (ایمان اور احتساب کا)۔ اور ایمان اقرار سے ثابت ہوتا ہے ، پس اگر انسان روزے کے وجوب کا اقرار کرے تو ایسا ہے کہ وہ اس کی مشروعیت پر ایمان لے آیا، اور احتسا ب یہ ہے کہ وہ پروردگا ر عالم کے ہاں آخرت کا امیدوار ہو، کیونکہ روزے کا اجروثواب بہت زیادہ ہے ، کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے تحت داخل ہے کہ :  ﴿انما یؤف الصابرون اجرھم بغیر حساب﴾  (ترجمہ)  ’’ بے شک صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا‘‘ ، اور روزہ کے بارے میں(حدیث قدسی میں ) وہ ارشاد باری تعالیٰ ہی کافی ہے جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لئے ہے کہ میں خود اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ اور جس طرف روزہ دارکا التفا ت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سلف صالحین کی ایک جماعت کہتے ہیں کہ:  ’’تمہارے روزہ کا دن تمہارے فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے ، اور یہ اختلاف اعمال میں سستی و ضعف اور برے اخلاق اور واجبات سے پیچھے ہٹنے میں نہیں ہے جس طرح اکثرلوگوں کا حال ہے کہ وہ اپنے نفسانی خواہشات کی اتباع میں لگے میں ہوئے ہیں ، اور روزہ کو بری عادات کو دور کرنے کے لئے ایک موقعہ گردانتا ہے ، اس حجت پہ کہ وہ روزہ سے ہے اور یہ کہ وہ کمزرو اور تھکا ہار اہے ، یہ غلط ہے ، بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ روزہ انسا ن کو اچھے اخلاق ، چستی و پھرتی ، واجبات اور حقوق کی ادائیگی پر ابھارے ، اور وہ اللہ کے لئے اپنے روزے میں اپنی اطاعت کے ساتھ اللہ کے لئے اطاعت میں سے زیادہ اجروثواب ہے کہ وہ روزہ کو تبدیل کرے ، اور وہ اس طرح کہ روزہ کی مشقت انسان کے اندر ضعف پیدا کرتی ہے ، پس اگر وہ اپنے نفس کو ایسے حال میں بھی اللہ کی اطاعت پر ابھارے تو اس میں بہت زیادہ اجر ہے ، جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ان سے ارشاد فرمایا:  ’’تمہارا اجر تمہارے خرچ کرنے اور تمہاری تھکان کی بنسبت ہوگا‘‘ ، یعنی جتنا تم مال خرچ کروگی اور جتنا تم اپنے آپ کو تھکاؤ گی ، اور یہ وہ تھکاوٹ ہے جو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کی جاتی ہے ۔ یہ ان خصلتوں کا مجمل خلاصہ ہے جن میں سے کوئی ایک خصلت بھی روزہ دار سے اسے کے روزہ کے دن نہیں چھوٹنی چاہئے ، اور روزہ کا دن فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے، اور یہ اختلاف نزول کا نہیں ہے بلکہ پاکیزگی ، صلاح ، تقوی اور ایمان کا ہے ۔   و صلی اللہ وبارک و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین. يوم صومك مختلف عن يوم فطرك.

المشاهدات:1798
- Aa +

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، اللہ اپنے رسول ان کی آل اولاد اور ان کے صحابہ پر درود وسلام اور اپنی رحمتیں نازل فرمائیں!

اما بعد۔

روزہ کی غرض وغایت صرف تقوی اللہ (اللہ کا ڈر) ہے ، اور یہی روزے سے غرض و مقصود ہے ، اسی لئے اللہ کا ارشاد ِ گر امی ہے :﴿یا أیھا الذین آمنوا کُتب علیکم الصیام کما کُتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾ (ترجمہ)  ’’اے ایمان تم پر بھی اسی طرح روزے فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کردئیے گئے تھے (اور اس لئے فرض کئے گئے ) تاکہ تم تقوی حاصل کرو‘‘۔

سوال:  بسا اوقات سائل پوچھتا ہے کہ ’’تقوی کا کیا مطلب ہے‘‘؟

جواب:  ’’تقوی‘‘  اطاعتِ الٰہی میں مشغول رہنے اور معصیت سے دُور رہنے ، اور اللہ کے ثواب میں رغبت رکھنے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہونے کا نام ہے ۔

یہی تقوی کی ایک آسان اور مختصر سی تعریف ہے ، پس وہی شخص متقی و پارسا کہلاتا ہے جو اطاعتِ الہٰی کو بجا لاتا ہے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے کنارہ کش رہتا ہے ، اور وہ کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کے وقت امید و خوف اور رغبت و رہبت کے درمیان رہتا ہے ، نہ تووہ اس فعل کو عادتاََ ترک کرتا ہے اور نہ ہی عادتاََاس کا ارادہ کرتاہے ، نہ تو وہ حرام کردہ چیز کو عادتاََلوگوں سے حیا کی وجہ سے ترک کرتا ہے اورنہ ہی عادتاََ لوگوں کی موافقت کی وجہ سے اس واجب کو کرتا ہے ، بل اس کو رغبت و رہبت کے ملے جلے جذبے کے ساتھ کرتا ہے یعنی اللہ کے ہاں نعمتوں کی رغبت رکھتے ہوئے اور اس کے خوف کی وجہ سے ۔یہی وہ عام معنی ہے جس کی وجہ سے اللہ جلّ شانہ نے روزہ مشروع قرار دیا ہے، اس لئے روزہ دار کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ میں اوراپنے اخلاق و عمل میں اس حکمت کو تلاش کرے تاکہ وہ اجرِ عظیم کو پالے ۔

پس روزے دار۔۔۔یعنی کھانے پینے سے رکنے والے۔۔۔ تو بہت ہیں لیکن ایک روزے دار اور دوسرے روزے دار کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے ، اور یہ فرق روزہ داروں کے دلوں میں عجزو انکساری ، اخلاص و صدق ، ایمان و برہان اور دلوں کے اندر جو اعمال ہوتے ہیں انکی ترجمانی کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے ، اوریہ جو عمل دل میں قائم ہوا ہے چاہئے کہ وہ جوارح واعضاء کی طرف طرزِ عمل میں صلاح کی ، عمل میں صدق کی اور برائی اور شر سے دُوری کی ترجمانی کرے ، کیونکہ صحیحین میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ :’’روزہ ڈھال ہے ‘‘۔ اور ڈھال سے مراد یہ یہ کہ اس روزرے کی ڈھال سے انسان اپنے آپ کو ہر قسم کی شر و فساد سے بچائے ، اور یہ اسی صورت میں فائدہ دے گا جب روزہ اسی صور ت میں ہو (یعنی ان چیزوں سے ڈھال ہو) جیسا کہ اگر انسان کسی قلعے کے اندر ہو تو وہ قلعہ اس انسان کو شر و فساد اور برے اخلاق سے بچاتا ہے ، اسی لئے آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ فحش گوئی اورشوروغل کرے اور نہ ہی جہالت برتے ، اور اگر کوئی شخص اسے گالم گلوچ کرے تو اسے کہے کہ بھائی میں تو روزے سے ہوں‘‘ یعنی اس بات سے روکا گیا ہوں کہ تمہاری طرح گالم گلوچ اور برا بھلا کہوں کیونکہ میں تو روزہ دار ہو ں ، اور یہ اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ روزہ دل کے اندر اس معاملہ کا نام ہے جو عمل کی ترجمانی کرتا ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے آپ کو ہر قسم کے برے اخلاق سے روکے اگرچہ یہ اپنے نفس کے لئے مقامِ انصاف میں ہو ، اللہ جلّ شانہ کا ارشادِ پاک ہے:  ﴿و اِن عاقبتم فعاقبوا بمثلِ ما عُوقبتم بہ﴾  (ترجمہ)  ’’اگر تم بدلہ لو تو اس طرح بدلہ لو جس طرح تمہارے ساتھ کیاگیا‘‘  ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے :  ﴿و جزاء ُ سئیۃِِ سئیۃٌ مثلھا﴾  (ترجمہ)  ‘‘اور کسی برائی کی جزاء اس جیسی برائی ہوتی ہے‘‘۔  اوران جیسے منازعات میں روزہ دار کو بلندی وبرتری کا حکم بھی ہے اور یہ مثل کے ذریعہ بدلہ دینے میں رغبت ہے ، جیسا کہ وہ یہ کہے کہ: ’’ میں روزہ سے ہوں ، اور اس طرح وہ بے وقوفوں کے ساتھ بحث و مباحثہ سے اپنی زبان کو روکتا ہے ، اور اپنے عمل کو برائی میں پڑنے سے روکتا ہے ، (لہٰذا) ضروری ہے کہ ہم میں سے کسی کا روزہ اللہ کے ثواب کے ساتھ ایمان اور صدقِ یقین کا ترجمان ہو، اسی لئے اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ : ’’جس نے ایمان و احتسا ب کی نیت سے روزہ رکھا تو اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے ‘‘، اور اسی کی طرف نے میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے اشارہ کیا تھا کہ لوگوں کے اجروثواب ان کے دلوں میں تصدیق وبرہان کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتے ہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے روزوں میں ان دو خصلتوں کا جائزہ لیں (ایمان اور احتساب کا)۔

اور ایمان اقرار سے ثابت ہوتا ہے ، پس اگر انسان روزے کے وجوب کا اقرار کرے تو ایسا ہے کہ وہ اس کی مشروعیت پر ایمان لے آیا، اور احتسا ب یہ ہے کہ وہ پروردگا رِ عالم کے ہاں آخرت کا امیدوار ہو، کیونکہ روزے کا اجروثواب بہت زیادہ ہے ، کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے تحت داخل ہے کہ :  ﴿اِنّما یؤفّ الصابرون اجرھم بغیر حساب﴾  (ترجمہ)  ’’ بے شک صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا‘‘ ، اور روزہ کے بارے میں(حدیثِ قدسی میں ) وہ ارشادِ باری تعالیٰ ہی کافی ہے جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’کہ ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لئے ہے کہ میں خود اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔

اور جس طرف روزہ دارکا التفا ت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سلفِ صالحین کی ایک جماعت کہتے ہیں کہ:  ’’تمہارے روزہ کا دن تمہارے فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے ، اور یہ اختلاف اعمال میں سستی و ضعف اور برے اخلاق اور واجبات سے پیچھے ہٹنے میں نہیں ہے جس طرح اکثرلوگوں کا حال ہے کہ وہ اپنے نفسانی خواہشات کی اتباع میں لگے میں ہوئے ہیں ، اور روزہ کو بری عادات کو دور کرنے کے لئے ایک موقعہ گردانتا ہے ، اس حجت پہ کہ وہ روزہ سے ہے اور یہ کہ وہ کمزرو اور تھکا ہار اہے ، یہ غلط ہے ، بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ روزہ انسا ن کو اچھے اخلاق ، چستی و پھرتی ، واجبات اور حقوق کی ادائیگی پر ابھارے ، اور وہ اللہ کے لئے اپنے روزے میں اپنی اطاعت کے ساتھ اللہ کے لئے اطاعت میں سے زیادہ اجروثواب ہے کہ وہ روزہ کو تبدیل کرے ، اور وہ اس طرح کہ روزہ کی مشقت انسان کے اندر ضعف پیدا کرتی ہے ، پس اگر وہ اپنے نفس کو ایسے حال میں بھی اللہ کی اطاعت پر ابھارے تو اس میں بہت زیادہ اجر ہے ، جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ان سے ارشاد فرمایا:  ’’تمہارا اجر تمہارے خرچ کرنے اور تمہاری تھکان کی بنسبت ہوگا‘‘ ، یعنی جتنا تم مال خرچ کروگی اور جتنا تم اپنے آپ کو تھکاؤ گی ، اور یہ وہ تھکاوٹ ہے جو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کی جاتی ہے ۔

یہ ان خصلتوں کا مجمل خلاصہ ہے جن میں سے کوئی ایک خصلت بھی روزہ دار سے اسے کے روزہ کے دن نہیں چھوٹنی چاہئے ، اور روزہ کا دن فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے، اور یہ اختلاف نزول کا نہیں ہے بلکہ پاکیزگی ، صلاح ، تقوی اور ایمان کا ہے ۔

 

و صلّی اللہ وبارک و سلّم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعینتمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، اللہ اپنے رسول ان کی آل اولاد اور ان کے صحابہ پر درود وسلام اور اپنی رحمتیں نازل فرمائیں!

اما بعد۔۔۔

روزہ کی غرض وغایت صرف تقوی اللہ (اللہ کا ڈر) ہے ، اور یہی روزے سے غرض و مقصود ہے ، اسی لئے اللہ کا ارشاد ِ گر امی ہے :﴿یا أیھا الذین آمنوا کُتب علیکم الصیام کما کُتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾ (ترجمہ)  ’’اے ایمان تم پر بھی اسی طرح روزے فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کردئیے گئے تھے (اور اس لئے فرض کئے گئے ) تاکہ تم تقوی حاصل کرو‘‘۔

سوال:  بسا اوقات سائل پوچھتا ہے کہ ’’تقوی کا کیا مطلب ہے‘‘؟

جواب:  ’’تقوی‘‘  اطاعتِ الٰہی میں مشغول رہنے اور معصیت سے دُور رہنے ، اور اللہ کے ثواب میں رغبت رکھنے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہونے کا نام ہے ۔

یہی تقوی کی ایک آسان اور مختصر سی تعریف ہے ، پس وہی شخص متقی و پارسا کہلاتا ہے جو اطاعتِ الہٰی کو بجا لاتا ہے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے کنارہ کش رہتا ہے ، اور وہ کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کے وقت امید و خوف اور رغبت و رہبت کے درمیان رہتا ہے ، نہ تووہ اس فعل کو عادتاََ ترک کرتا ہے اور نہ ہی عادتاََاس کا ارادہ کرتاہے ، نہ تو وہ حرام کردہ چیز کو عادتاََلوگوں سے حیا کی وجہ سے ترک کرتا ہے اورنہ ہی عادتاََ لوگوں کی موافقت کی وجہ سے اس واجب کو کرتا ہے ، بل اس کو رغبت و رہبت کے ملے جلے جذبے کے ساتھ کرتا ہے یعنی اللہ کے ہاں نعمتوں کی رغبت رکھتے ہوئے اور اس کے خوف کی وجہ سے ۔یہی وہ عام معنی ہے جس کی وجہ سے اللہ جلّ شانہ نے روزہ مشروع قرار دیا ہے، اس لئے روزہ دار کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ میں اوراپنے اخلاق و عمل میں اس حکمت کو تلاش کرے تاکہ وہ اجرِ عظیم کو پالے ۔

پس روزے دار۔۔۔یعنی کھانے پینے سے رکنے والے۔۔۔ تو بہت ہیں لیکن ایک روزے دار اور دوسرے روزے دار کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے ، اور یہ فرق روزہ داروں کے دلوں میں عجزو انکساری ، اخلاص و صدق ، ایمان و برہان اور دلوں کے اندر جو اعمال ہوتے ہیں انکی ترجمانی کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے ، اوریہ جو عمل دل میں قائم ہوا ہے چاہئے کہ وہ جوارح واعضاء کی طرف طرزِ عمل میں صلاح کی ، عمل میں صدق کی اور برائی اور شر سے دُوری کی ترجمانی کرے ، کیونکہ صحیحین میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ :’’روزہ ڈھال ہے ‘‘۔ اور ڈھال سے مراد یہ یہ کہ اس روزرے کی ڈھال سے انسان اپنے آپ کو ہر قسم کی شر و فساد سے بچائے ، اور یہ اسی صورت میں فائدہ دے گا جب روزہ اسی صور ت میں ہو (یعنی ان چیزوں سے ڈھال ہو) جیسا کہ اگر انسان کسی قلعے کے اندر ہو تو وہ قلعہ اس انسان کو شر و فساد اور برے اخلاق سے بچاتا ہے ، اسی لئے آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ فحش گوئی اورشوروغل کرے اور نہ ہی جہالت برتے ، اور اگر کوئی شخص اسے گالم گلوچ کرے تو اسے کہے کہ بھائی میں تو روزے سے ہوں‘‘ یعنی اس بات سے روکا گیا ہوں کہ تمہاری طرح گالم گلوچ اور برا بھلا کہوں کیونکہ میں تو روزہ دار ہو ں ، اور یہ اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ روزہ دل کے اندر اس معاملہ کا نام ہے جو عمل کی ترجمانی کرتا ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے آپ کو ہر قسم کے برے اخلاق سے روکے اگرچہ یہ اپنے نفس کے لئے مقامِ انصاف میں ہو ، اللہ جلّ شانہ کا ارشادِ پاک ہے:  ﴿و اِن عاقبتم فعاقبوا بمثلِ ما عُوقبتم بہ﴾  (ترجمہ)  ’’اگر تم بدلہ لو تو اس طرح بدلہ لو جس طرح تمہارے ساتھ کیاگیا‘‘  ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے :  ﴿و جزاء ُ سئیۃِِ سئیۃٌ مثلھا﴾  (ترجمہ)  ‘‘اور کسی برائی کی جزاء اس جیسی برائی ہوتی ہے‘‘۔  اوران جیسے منازعات میں روزہ دار کو بلندی وبرتری کا حکم بھی ہے اور یہ مثل کے ذریعہ بدلہ دینے میں رغبت ہے ، جیسا کہ وہ یہ کہے کہ: ’’ میں روزہ سے ہوں ، اور اس طرح وہ بے وقوفوں کے ساتھ بحث و مباحثہ سے اپنی زبان کو روکتا ہے ، اور اپنے عمل کو برائی میں پڑنے سے روکتا ہے ، (لہٰذا) ضروری ہے کہ ہم میں سے کسی کا روزہ اللہ کے ثواب کے ساتھ ایمان اور صدقِ یقین کا ترجمان ہو، اسی لئے اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ : ’’جس نے ایمان و احتسا ب کی نیت سے روزہ رکھا تو اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے ‘‘، اور اسی کی طرف نے میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے اشارہ کیا تھا کہ لوگوں کے اجروثواب ان کے دلوں میں تصدیق وبرہان کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتے ہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے روزوں میں ان دو خصلتوں کا جائزہ لیں (ایمان اور احتساب کا)۔

اور ایمان اقرار سے ثابت ہوتا ہے ، پس اگر انسان روزے کے وجوب کا اقرار کرے تو ایسا ہے کہ وہ اس کی مشروعیت پر ایمان لے آیا، اور احتسا ب یہ ہے کہ وہ پروردگا رِ عالم کے ہاں آخرت کا امیدوار ہو، کیونکہ روزے کا اجروثواب بہت زیادہ ہے ، کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے تحت داخل ہے کہ :  ﴿اِنّما یؤفّ الصابرون اجرھم بغیر حساب﴾  (ترجمہ)  ’’ بے شک صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا‘‘ ، اور روزہ کے بارے میں(حدیثِ قدسی میں ) وہ ارشادِ باری تعالیٰ ہی کافی ہے جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’کہ ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لئے ہے کہ میں خود اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔

اور جس طرف روزہ دارکا التفا ت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سلفِ صالحین کی ایک جماعت کہتے ہیں کہ:  ’’تمہارے روزہ کا دن تمہارے فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے ، اور یہ اختلاف اعمال میں سستی و ضعف اور برے اخلاق اور واجبات سے پیچھے ہٹنے میں نہیں ہے جس طرح اکثرلوگوں کا حال ہے کہ وہ اپنے نفسانی خواہشات کی اتباع میں لگے میں ہوئے ہیں ، اور روزہ کو بری عادات کو دور کرنے کے لئے ایک موقعہ گردانتا ہے ، اس حجت پہ کہ وہ روزہ سے ہے اور یہ کہ وہ کمزرو اور تھکا ہار اہے ، یہ غلط ہے ، بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ روزہ انسا ن کو اچھے اخلاق ، چستی و پھرتی ، واجبات اور حقوق کی ادائیگی پر ابھارے ، اور وہ اللہ کے لئے اپنے روزے میں اپنی اطاعت کے ساتھ اللہ کے لئے اطاعت میں سے زیادہ اجروثواب ہے کہ وہ روزہ کو تبدیل کرے ، اور وہ اس طرح کہ روزہ کی مشقت انسان کے اندر ضعف پیدا کرتی ہے ، پس اگر وہ اپنے نفس کو ایسے حال میں بھی اللہ کی اطاعت پر ابھارے تو اس میں بہت زیادہ اجر ہے ، جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ان سے ارشاد فرمایا:  ’’تمہارا اجر تمہارے خرچ کرنے اور تمہاری تھکان کی بنسبت ہوگا‘‘ ، یعنی جتنا تم مال خرچ کروگی اور جتنا تم اپنے آپ کو تھکاؤ گی ، اور یہ وہ تھکاوٹ ہے جو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کی جاتی ہے ۔

یہ ان خصلتوں کا مجمل خلاصہ ہے جن میں سے کوئی ایک خصلت بھی روزہ دار سے اسے کے روزہ کے دن نہیں چھوٹنی چاہئے ، اور روزہ کا دن فطر کے دن سے مختلف ہونا چاہئے، اور یہ اختلاف نزول کا نہیں ہے بلکہ پاکیزگی ، صلاح ، تقوی اور ایمان کا ہے ۔

 

و صلّی اللہ وبارک و سلّم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین.

يوم صومك مختلف عن يوم فطرك.

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83187 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78236 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72547 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60684 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55031 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52239 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49437 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات47985 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44833 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44138 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف