السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جناب عالی! ایک عورت روزانہ بغیر کسی عذرکے ظہر کی نمازڈھائی بجے تک مؤخر کرتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تأخير المرأة لصلاة الظهر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جناب عالی! ایک عورت روزانہ بغیر کسی عذرکے ظہر کی نمازڈھائی بجے تک مؤخر کرتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تأخير المرأة لصلاة الظهر
الجواب
حامداََو مصلیاََ ۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امابعد۔۔۔
جب تک ظہر کا وقت نہ نکل جائے توتاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور ظہر کا وقت زوال سے شروع ہوتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتاہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجاتاہے ۔ اور اس پر آپﷺکی بہت ساری احادیث دلالت کرتی ہیں۔ اور ظہر کا وقت عصر کے داخل ہونے کے ساتھ نکل جاتا ہے اور ظہر فاصل ہے بلکہ ظہر کے وقت کے نکلنے کے ساتھ ہی عصر کا وقت داخل ہوجاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ترجمہ) ’’آفتاب کے ڈھلنے کے وقت سے لیکر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرواورفجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو اور یاد رکھو کہ فجر کی تلاوت میں (فرشتوں کا) مجمع حاضر ہوتا ہے ‘‘۔ الاسراء: 78
لہٰذا ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کے درمیان کوئی فاصل نہیں ہے بلکہ ایک کے وقت کا خارج ہونے سے دوسرے کا وقت داخل ہوجاتا ہے سوائے فجر کے کیونکہ یہ الگ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(ترجمہ) ’’اورفجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو اور یادرکھو کہ فجر کی تلاوت میں (فرشتوں کا) مجمع حاضر ہوتا ہے ‘‘۔کیونکہ اس والله أعلمکا وقت مستقل ابتدا ء اور انتہاء کا ہے۔
آپ کا بھائی
أ. د.خالد المصلح
5 / 3 / 1434هـ