×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / عید اور جمع کا اکھٹا ہونا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

جناب عالی! جو شخص عید کی نماز پڑھ لے تو اس سے جمعہ کی ساقط ہوجاتی ہے اورکیا وہ اس دن ظہر کی نماز پڑھے گا؟ ازراہ کرم آپ ہمارے لئے اس بات کی وضاحت فرمائیں اجتماع العيد والجمعة

المشاهدات:1792

جناب عالی! جو شخص عید کی نماز پڑھ لے تو اس سے جمعہ کی ساقط ہوجاتی ہے اورکیا وہ اس دن ظہر کی نماز پڑھے گا؟ ازراہ کرم آپ ہمارے لئے اس بات کی وضاحت فرمائیں

اجتماع العيد والجمعة

الجواب

حامداََو مصلیاََ ۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

  امابعد۔۔۔

آپ کے سوال کے جواب میں ہم اللہ کی توفیق سے یہ فرمائیں گے کہ اس میں اہلِ علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ جو عید کی نمازمیں حاضر ہو تو وہ جمعہ کی نماز میں بھی حاضر ہو اور یہ تو مستحب عمل ہے لیکن اختلاف اس بات میں ہے کہ کیا جو نمازِ عید پڑھ لے تو کیا اس کو جمعہ کی رخصت ہوگی یا نہیں؟ اس میں مختلف اقوال ہیں

پہلا قول:  یہ ہے کہ جس شخص نے عید کی نماز پڑھ لی تو وہ جمعہ کی نماز چھوڑ کر ظہر پڑھ سکتاہے لیکن امام کے لئے واجب ہے کہ وہ جمعہ ادا کرے تاکہ جو جمعہ پڑھنا چاہتے ہیں وہ جمعہ پڑھ لیں ۔اورجو نہیں پڑھنا چاہتے تو وہ ظہر اد اکریں ۔ یہ امام احمدؒ کا مذہب ہے ۔

دوسرا قول:  یہ ہے کہ جس نے عید کی نماز پڑھ لی تو جمعہ کے چھوڑنے میں کوئی رخصت نہیں بلکہ وہ تو واجب ہے ۔یہ اما م ابوحنیفہ ؒ کاقول ہے، اور امام مالکؒ کی بھی ایک روایت ہے اور یہی قول ابن حزم ، ابن منذر ابن البر رحمہم اللہ کا بھی ہے

تیسرا قول:  یہ ہے کہ صحرا اور دیہات والوں کے لئے تو رخصت ہے لیکن شہر والوں کے لئے جمعہ چھوڑنے کی رخصت نہیں ۔یہ امام شافعی ؒ کا قول ہے اور امام مالکؒ سے بھی ایک قول اس طرح منقول ہے ۔

چوتھا قول:  یہ ہے کہ جب عیداور جمعہ اکھٹاہوجائے تو عید کی نماز جمعہ کی جگہ ہوجاتی ہے اور یہی قول عطاء بن ابی رباح ؒ ، حضرت علیؓ اور حضرت ابن زبیرؓ سے روایت ہے ۔ اور ہر فریق نے اپنے مذہب پر دلائل پیش کئے ہیں لیکن ان میں سب سے اقرب الی الصواب قول امام احمد ؒ کا ہے کہ جس نے عید پڑھ لی ہو تو وہ جمعہ میں حاضر نہ ہو کیونکہ اس کو امام احمدؒ (۱۸۸۳۱) ابوداؤد(۱۰۷۰) اور نسائی (۱۵۹۱) نے روایت کی ہے حضرت معاویہؓ  کی حدیث سے کہ انہوں نے زید بن ارقم ؓ سے سوال کیا کہپ تم نے آپکے ساتھ دعیدیں پڑھیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: جی ہاں!  دن کے ابتداء میں عید کی نماز پڑھی اور پھر جمعہ کی نماز میں رخصت دی ۔اور اس کو ابن المدینیؒ مے صحیح قراردیا ہے اور اس سے بھی استدلال کرتے ہیں جو ابوداؤد ؒ (۱۰۷۳) اور ابن ماجہ (۱۳۱۱) نے ابوہریرہؓسے روایت کی ہے کہ آپنے فرمایا:’’اس دن تمہاری دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں جو چاہے اس کو جمعہ کی جگہ کردے اور ہم سب جمع ہیں ‘‘۔اس حدیث میں کلام ہوا ہے لیکن پچھلی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

آپ کا بھائی

أ.د.خالد المصلح

29 / 9 /1428هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127577 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62671 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59217 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55710 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55179 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52041 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50021 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45030 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف