خفین پر مسح کرنے کے احکام اور شرائط کو آپ ہمارے لئے واضح کریں ۔
نريد توضيح حول مسألة المسح على الخفين من حيث شروطها وأحكامها
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
خفین پر مسح کرنے کے احکام اور شرائط کو آپ ہمارے لئے واضح کریں ۔
نريد توضيح حول مسألة المسح على الخفين من حيث شروطها وأحكامها
الجواب
حامداََ ومصلیاَ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور سر پر مسح کرو اور پیروں کو بھی دھوؤــــ۔ (المائدہ :۶)
اور دوسری قراء ۃ میں (وأرجلکم) اور یہ آیت پیروں پر مسح کرنے اور دھونے دونوں پر دلالت کرتی ہے۔ جو ڈھکے ہوئے ہو۔ اور سنت تو یہی ہے کہ پیروں کو دھویا جائے جب وہ مکشوفہ ہو۔ اور جب مستورۃ ہو تو اس وقت مسح سنت ہے۔ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ دھونا ہی اصل سنت ہے۔ اور بعض فرماتے ہیں کہ مسح کرنا ہی اصل سنت ہے۔اور صحیح یہ ہے کہ اس کو انسان کے حال پر چھوڑدیا جائے ۔ اور آپﷺنے اپنی موزوں پر مسح کیا ہے ۔ اور مسح علی الخفین میں سے بڑی شرط ہے۔ کہ پہنے جائے جو صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں حضرت مغیرۃ بن شعبہ کی حدیث میں آیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺکیساتھ تھا۔ تو میں پیچھے اترا۔ یعنی اترا کہ انکے موزوں کو اتاروں تو ٓآپﷺنے فرمایا کہ چھوڑو میں نے یہ طہارت کی حالت میں پہنے ہوئے ہیں۔
اور مسائل جن کے بارے میں زیادہ پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ اگر ایک جراب پہنے تو اور اس پر مسح کرے اور پھر دوسرا پہنے تو کیا اوپر والے جراب کے اوپر مسح کرنا جائز ہے؟
جواب: بعض علماء کے صحیح قول کے مطابق جائز ہے۔ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس کا حکم پہلے ممسوحہ جراب سے متعلق ہے۔ لیکن جو سامنے آرہا ہے کہ کوئی بات نہیں کر سکتا ہے۔ کہ وہ آخر میں جراب پہنتاہے اوپر والے پر مسح کرنا جائز ہے۔
اور جو مسح الخفین کی مدت کے بارے میں مسلۂ ہے وہ یہ کہ جمھور علماء نے اس کا وقت مقرر کیا ہے۔ کہ مقیم کے لئے ایک دن رات یعنی صرف پانچ نماز میں نہیں بلکہ ۲۴ گھنٹے۔
اور مدت کب شروع ہوتی ہیں ؟
حدث کے بعد پہلے مسح کرنے سے اور یہی بعض علماء کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ حدث ہوتے ہی مدت شروع ہو جاتی ہے۔اور یہ زیادہ ٹھیک ہے کہ حدث ہوتے ہی مدت شروع ہو ۔اور مسافر کے لیے ۳ دن اور ۳ راتیں ہیں۔