×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / مسجد میں عقدِ نکاح کی رسم ادا کرنا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

کیا نمازگاہ میں اعلان نکاح اور رسم نکاح ادا کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس میں ہنسی مذاح کے ساتھ بطور یاداشت کے تصویریں لینا جائز ہے ؟ اور کیا دوران نماز نمازیوں کی راحت کے بقدر بچوں کا استمرار کے ساتھ کھیل کود اور ہنسی مذاق جائز ہے ؟ یہ بات پیش نظر رہے کہ مسجد ہی ان لوگوں کا ملجاء و مأوی ہے اس لئے کہ وہ جرمنی میں رہائش پذیر ہیں ، اوران احکام کی وجہ سے بعض لوگوں کا اس مسجد سے اجتناب کرکے دوسری مسجد کو اختیارکرنے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ الاحتفال بعقد النكاح في المسجد

کیا نمازگاہ میں اعلانِ نکاح اور رسمِ نکاح ادا کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس میں ہنسی مذاح کے ساتھ بطورِ یاداشت کے تصویریں لینا جائز ہے ؟ اور کیا دورانِ نماز نمازیوں کی راحت کے بقدر بچوں کا استمرار کے ساتھ کھیل کود اور ہنسی مذاق جائز ہے ؟ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ مسجد ہی ان لوگوں کا ملجاء و مأوی ہے اس لئے کہ وہ جرمنی میں رہائش پذیر ہیں ، اوران احکام کی وجہ سے بعض لوگوں کا اس مسجد سے اجتناب کرکے دوسری مسجد کو اختیارکرنے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟

الاحتفال بعقد النكاح في المسجد

الجواب

اما بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:

اہلِ علم کی ایک جماعت (حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ اور بعض حنابلہ ) مساجد میں عقدِ نکاح کو مستحب قرار دیتی ہے لیکن عقد سے ان کی مراد یہ ہے کہ ایجاب عورت کے سرپرست کی طرف سے ہو اور قبول خاوند کی طرف سے ہو اور ان سب کا استدلال امام ترمذیؒ کی روایت کردہ حضرت عائشہؓ کی حدیث (۱۰۸۹) سے ہے وہ فرماتی ہیں کہ آپکا ارشاد ہے :’’اس نکاح کا سب کے سامنے اعلان کرو اور(یہ رسم) مسجد میں اد کرواور اس میں دف بجاؤّ۔امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ضعیف قراردیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس باب میں یہ حدیث غریب اور حسن ہے اور اس حدیث کا راوی عیسی بن میمون ضعیف ہے ۔اور امام بخاریؒ نے ان کو حدیث کا منکر کہا ہے ، اور ابن حبانؒ کے فرماتے ہیں کہ یہ ساری موضوع روایات کو روایت کرتے ہیں ۔اس لئے جن لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ اس کو مستحب نہیں سمجھتے بلکہ وہ یہ علت نکالتے ہیں کہ نکاح اطاعت وعبادت ہے اس لئے اس کو مساجد میں مستحب سمجھا جاتا ہے کہ مساجد بھی عبادت گاہیں ہیں۔ لیکن جو بات میرے سامنے ظاہر ہوئی ہے تو وہ یہ کہ عقدِ نکاح مسجد میں مباح ہے جیسا کہ حنابلہ کا مذہب ہے ۔

بہر کیف !  چاہے ہم مساجد میں عقدِ نکاح کے استحباب کا کہیں یا اس کی اباحت کا بہر صورت مساجد کوہرقسم کے لہوولعب سے محفوظ رکھنا ہے اور ہر اس چیز سے جو نمازیوں کے لئے ایذا رساں ہواس لئے کہ مساجد ان کاموں کے لئے نہیں بنائی گئیں بلکہ یہ تو اللہ جل جلالہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت کے لئے بنائی گئیں ہیں۔پس میرے خیال میں یہی مناسب لگتا ہے کہ ایک دوسرے کی ہر اس کام میں باہم نصیحت اور تعاو ن کیا جائے جس میں مساجد کی حفاظت ہو اور اگر کوئی اصلاح نہ کرسکتاہو تو پھر اسے کوئی ایسی مسجد تلاش کرنی چاہئے جس میں وہ نماز پڑھ سکے اگر اس میں کوئی فساد واقع نہ ہور ہا ہے اس لئے کہ یہ ایک مسجد سے دوسری مسجد منتقل ہونے کے فساد سے زیادہ فسا دہے ۔ واللہ أعلم۔


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127316 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62458 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58514 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55640 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55145 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51738 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49865 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44168 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف