×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / نماز کے لئے نیت کو مستخضر کرنے کا مسئلہ

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

جناب من میں نے تو یہی سیکھا تھا کہ تکبیرتحریمہ سے پہلے صرف نیت کا استحضار کروں یعنی میں تکبیرتحریمہ کے الفاظ بغیر نماز پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میں نے ایک موقع پر بعض (چینلز) پر کچھ مشائخ حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نیت کے ساتھ ہی آپ کی نماز کا اعتبار ہوگا نہ کہ صرف نماز کاقصد کرنے سے ، اور بعض ان میں سے یہ کہہ رہے تھے کہ آپ کا نما ز کے کے لئے وضو خانہ کی طرف جانہ اس کا اعتبار نیت کے ساتھ ہوگا، لہٰذا یہ حضرات جو فرما رہے ہیں اس کی کیا دلیل ہے اور یہ جو میں ہر نماز کے لئے نیت کا استحضار کرتا ہوں کیا یہ جائز ہے ؟ ازراہ کرم آپ اس بارے میں ہمیں آگاہ فرمائیں مسألة استحضار النية للصلاة

المشاهدات:1790

جناب من میں نے تو یہی سیکھا تھا کہ تکبیرِتحریمہ سے پہلے صرف نیت کا استحضار کروں یعنی میں تکبیرِتحریمہ کے الفاظ بغیر نماز پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میں نے ایک موقع پر بعض (چینلز) پر کچھ مشائخ حضرات کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نیت کے ساتھ ہی آپ کی نماز کا اعتبار ہوگا نہ کہ صرف نماز کاقصد کرنے سے ، اور بعض ان میں سے یہ کہہ رہے تھے کہ آپ کا نما ز کے کے لئے وضو خانہ کی طرف جانہ اس کا اعتبار نیت کے ساتھ ہوگا، لہٰذا یہ حضرات جو فرما رہے ہیں اس کی کیا دلیل ہے اور یہ جو میں ہر نماز کے لئے نیت کا استحضار کرتا ہوں کیا یہ جائز ہے ؟ ازراہِ کرم آپ اس بارے میں ہمیں آگاہ فرمائیں

مسألة استحضار النية للصلاة

الجواب

نماز کے لئے نیت کے وجوب پر اہلِ علم کا اجما ع ہے کہ نیت کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں اور اہلِ علم میں سے کئی نے یہی کہا ہے ، اور اصل اس میں آپکا فرمان ہے جس کو امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے حضرت عمر ابن خظابؓ سے نقل کیا ہے کہ :’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت کے بقدر ملے گا‘‘۔اور نیت کو نماز پر مقدم رکھنے میں علماء کے تین اقوال ہیں:

پہلا قول:  جب تک نیت کو کسی دوسری طرف نہ پھیرے تب تک نیت کو تکبیرِتحریمہ پر مقد م رکھناجائز ہے اگرچہ وقت زیادہ ہی گزرجائے ، یہی امام مالک ؒکا مذہب ہے، ابن عبدالبر (کافی:صفحہ نمبر ۳۹) میں فرماتے ہیں:’’کہ امام مالکؒ کے مذہب کا حاصل یہ ہے کہ نمازی جب نما ز کے لئے کھڑا ہوتا ہے یا وہ نماز کے لئے مسجد جانے کے ارارہ کرتا ہے تو وہ اپنی نیت پر ہی ہوتاہے ، اگرچہ اس کی نیت اسے غائب ہوجائے بایں طور کہ وہ اسے کسی اور طرف پھیر لے ‘‘۔اور امام احمدؒ سے بھی اسی طرح ایک قول منقول ہے کہ ان سے جب ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو نمازِ جمعہ کے لئے جمعہ کے روز گھر سے نکلتاہے تو کیا وہ نیت کرے گا؟ تو فرمایا:کہ اس کا گھرسے نکلنا ہی نیت ہے اورفرمایا آدمی جب اپنے گھر سے نکلتاہے تووہی اس کی نیت ہوتی ہے ، اب تم ہی بتاؤ کہ کیا اس نے نماز کے بغیر ہی تکبیر پڑھ لی‘‘؟شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ امام احمدؒ کے اس نقل شدہ قول کے بعد (مجموع الفتاوی:۲۲/۲۲۹) میں فرماتے ہیں کہ:’’اسی لئے ان کے اکابرِاصحاب خرقی وغیرہ نےیہ کہا ہے کہ جب نماز کا وقت داخل ہوجائے تواس کے لئے اس وقت سے تکبیرِتحریمہ پر نیت کو مقدم رکھنا کافی ہوجائے گا‘‘۔

دوسرا قول:  جب تک نمازی نیت کو فسخ نہ کرے تو اگروقت زیادہ نہیں گزرا تو اس کے لئے تکبیرِتحریمہ پر نیت کو مقدم رکھنا جائز ہے ، اور یہ امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدبن حنبلؒ کا مذہب ہے ۔

تیسراقول:  تکبیرِ تحریمہ پر نیت کو مقدم رکھنا جائز نہیں ہے بلکہ تکبیرِتحریمہ نیت کے ساتھ ساتھ ہو، اور یہ امام شافعی ؒ کا مذہب ہے ، اور اس قول میں جو تنگی اور مشقت ہے وہ مخفی نہیں ہے ، ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ :تکبیرتحریمہ سے نیت کو جدا کرنا جائزنہیں ہے بلکہ دونوں ساتھ ساتھ ہونا چاہئے کہ ان دونوں میں نہ تو تھوڑا ساوقفہ ہو اور نہ زیادہ۔

اوران سب اقوال میں مجھے وہی قول راجح نظر آتا ہے جس کو امام مالکؒ نے اختیارکیا ہے اور اسی کی امام احمدؒ نے بھی صراحت فرمائی ہے کہ نماز ی جب تک نیت کسی اور طرف نہ پھیر ے یا اس کو فسخ نہ کرے تو طویل وقفہ کے باوجود بھی تکبیرِتحریمہ پر نیت کی تقدیم جائزہے ۔اس لئے کہ نیت سے اصل مقصود تو ایک عمل کو دوسرے عمل سے جدا کرناہے اور یہ مقصد پہلی نیت سے حاصل ہے جب نیت نہ تو فسخ کی گئی ہے اور نہ ہی اسے دوسری طرف پھیرا گیاتو وہ حکماََاسی کے ساتھ ہی ہوتی ہے جب تک وہ خو د اسے ختم کرنے کی نیت نہ کرے ۔ اسی لئے اگر نمازی نیت سے غافل ہوجائے یا دورانِ نماز اس سے غائب ہوجائے تو اس سے نماز کی صحت میں کوئی فرق نہیں آئے گااور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے (شرح العمدہ: ۳۸۷) میں اس پر اہلِ علم کا اجماع نقل کیاہے اور یہ قول تکبیرِتحریمہ پر نیت کی تقدیم کا جوا ز ہے اگر چہ وقفہ زیادہ گزرے ، او ر یہی قول شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے اختیار کردہ اقوال میں ظاہر قول ہے ۔واللہ أعلم۔

آپ کا بھائی

خالد بن عبد الله المصلح

14/09/1424هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127618 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62695 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59313 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55713 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55184 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52073 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50038 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45046 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف