×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / علاج و دوا کے بارے میں کچھ کلمات

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جو تما م جہانوں کا پالنہار ہے ، اور میں اپنے نبی حضرت محمدﷺ، ان کی آل و عیال اور ان کے تمام جانثار صحابہ پر درود وسلام بھیجتاہوں ۔ امابعد…… امراض و اسقام ایک ایسی آزمائش ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کو آزماتا ہے اس لئے کہ اس میں بہت سی فوائد اور عبرتیں ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے سربستہ بھید ا ور حکمتیں ہیں جن کا ادراک حضرت انسان غورو تدبرا ور حسن نظر سے باآسانی کرسکتاہے ، اور یہ تو مشہو ر کہاوت ہے کہ :’’بسااوقات جسم بیماریوں سے بھی صحتیاب ہوجاتے ہیں‘‘۔اور بیماریوں کے ذریعے بندوں کو آزمانے میں ایک سب سے بڑی حکمت تویہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار ومولا کی طرف رجوع کریں تاکہ ان کے دل سب سے کٹ کر صرف اپنے پروردگار سے جڑ جائیں ، اس لئے کہ شفاء تو اسی کے ہاتھ میں ہے ، جیسا کہ ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے پرودگار کی مدحہ سرائی کرتے ہوئے فرمایا:(ترجمہ) ’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفادیتاہے ‘‘اسی لئے تومصیبتوں کا مارا اسے دل سے پکارتا ہے تاکہ جن بیماریوں میں وہ گھرا ہواہے ان سے اسے خلاصی عطاکرے۔ اوریہ بات قابل تعجب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ (بندوں سے) آزمائشوں کے ذریعہ دعا کو اور عطاء کے ذریعہ شکرکو نکالنا چاہتا ہے، وہب بن منبہ ؒ فرماتے ہیں کہ:’’افتاد و آزمائش اس لئے اتاری جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعے (بندے سے ) دعا نکالی جائے ‘‘۔اورانسان جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(ترجمہ) ’’اورجب اس کو کوئی برائی(پریشانی وتکلیف) چھوتی ہے تو پھر بڑی لمبی لمبی دعائیں مانگتاہے‘‘۔اور ان انبیاء کی سیرت میں جن کے نقش قدم پر چلنے کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے ان میں حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسی بیماری میں مبتلا کیا ، کہ جب وہ بیماری طول اورشدت اختیار کرگئی تو وہ اپنے پروردگارکے حضور گڑگڑاکر دوہائی دینے لگے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) ’’اور اس وقت کا تذکرہ سنو! جب ایوب نے اپنے پرودگار کو پکارا کہ (اے میرے رب) مجھے تکلیف نے چھوا ہے اورتو سب رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والاہے‘‘۔تو (اس پر)کریم و منان ذات نے بھی ان کی فریادرسی کی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ)’’پس ہم نے ان کی پکار پر لبیک کہا اور ان کو لاحق تکلیف کو ان سے دورکیا‘‘۔ لہٰذا مقاصد کو پانے کا سب سے بڑا وسیلہ دعا ہی ہے ، کتنے ایسے بیمار ہیں جب ان کی بیماری طول اختیار کرگئی اور ا ن کی آزمائش بڑھ گئی اورانہوں نے اللہ کے سامنے اپنا شکوہ بلند کیا تو فورا ان کے پاس اللہ کی طرف سے آسانی اور رحمت کا نزول ہوا۔ ایک شاعر کہتاہے :(جس کا ترجمہ ہے) ’’اس مریض سے کہو کہ جب طب کے سارے فنون اس کو شفاء دینے سے عاجز آگئے او ر اس کے بعد اس نے بیماری سے نجات اور عافیت پائی تو کس نے اسے عافیت دی‘‘؟ اورکتنی تعجب کی بات ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے فیصلہ بھی پلٹ لیا،یعنی جب ان کو بیماریاں گھیرتی ہیں تو ان کے دل ظاہری اسباب کی طرف چلے جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں حالانکہ وہی شفا دینے والا ہے اس کے سوا کوئی نہیں شفا دینے والا۔ تمہیں (یہاں) کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے کہ جب ان کو بیماریاں گھیرتی ہیں تو ان کے دل فورا ڈاکٹروں اور دارو درمل کی طرف چلے جاتے ہیں، اور انہی سے بیماری کے دور ہونے اور شفاء کی امیدیں وابستہ کردیتے ہیں، اور پھر وہ ان کو خدائی کے درجے میں رکھ دیتے ہیں، تو پھر جن بیماریوں نے ان کو گھیرا ہوتا ہے اس سے زیادہ خطرناک ان کے دلوں کا بگاڑ اور فسادہے ۔ شاعر کہتا ہے (جس کا ترجمہ ہے):- ’’اس طبیب سے پوچھو جسے موت کے ہاتھوں نے اچک لیا کہ اے بیماریوں کے علاج کرنے والے کس نے تمہیں موت کی نیند سلادیا؟‘‘ اور ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ویرانوں اور بیابانوں کی خاک چھانی، اور جنہوں نے صحرا نوردی کی اور سمندروں کی موجو ں کو چاک کیا ،اور پورب و پچھم میں شہردر شہرگھومے پھرے (محض) جادوگروں اور شعبدہ بازوں سے ملنے کے لئے ، اور انہی سے مصیبت اور تکلیف  کے دور کرنے کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، تو اس طرح انہوں نے ان کے جسموں کو ٹھیک کر نے کے لئے ان کے دل برباد کردئیے، اور آخر کا ر ان کے دل بھی بربادہوجاتے ہیں اور ان کے جسم بھی کمزور ہوجاتے ہیں ۔ ارشا د باری تعالیٰ ہے(ترجمہ) ’’اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات کے کچھ لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے اس طرح ان لوگوں نے جنات کو اور سر چڑھا دیا تھا‘‘ ۔لہٰذا جو بھی شخص نجومی ، جادوگر یا کاہن کے پاس آئے اور پھر وہ اپنی پوچھی گئی بات میں اس کی تصدیق کرے تو یقینا اس نے اس شریعت کا انکا ر کیا جومحمدﷺپر اتاری گئی ہے ، اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے غافل ہوگئے ہیں اس لئے ان کو ان کی جانوں کے سپرد کردیا گیا اور ان کے دل اللہ سے نہیں جڑے ،  اور اگر وہ ذرا بھی ہوش کے ناخن لیں تو اچھی طرح اس بات کو جان لیں گے کہ سارے کے سارے امور تو صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہی ہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(ترجمہ) ’’ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو مصیبت کو دور کرے ‘‘۔ اور اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں (ترجمہ)’’اور جو اللہ پر توکل کرتاہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتاہے ‘‘۔یعنی جو بھی گردش دوراں اور حوادث زمانہ میں اللہ پر بھروسہ کرتاہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتاہے اور جو معاملہ اسے پریشان کرتاہے اللہ اس میں اس کے لئے کافی ہوجاتاہے ، لہٰذا ہر مصیبت زدہ کے لئے میری نصیحت ہے چاہے وہ بیمار ہو یا کسی اور تکلیف میں ہوتو وہ اپنا دکھڑا اس اللہ کو سنائے جو ہر رات اسے آواز دے کر پکار تاہے ’’کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا پوری کروں ؟کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے عطاکروں ؟کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اس کی بخشش کروں ؟‘‘۔ شاعر کہتا ہے (جس کا ترجمہ ہے) تمہیں جو بھی حاجت درکار ہو تو صرف خدائے رحمن پر بھروسہ کر کیونکہ ایک وہی ہے جو حاجتوں کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘‘۔ اسی طرح میں ان کو صبر کا دامن تھامنے، اچھے حالات کا انتظار کرنے ، اور اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی بھی نصیحت کرتاہوں ، کیونکہ کتنی ایسی مصیبتیں ہیں جو مصیبت زدہ کے لئے دنیا و آخرت میں خیر وعافیت سے زیادہ بہترہیں، امام بخاریؒ نے (۵۶۵۲) اور امام مسلمؒ نے (۲۵۷۶) میں حضرت ابن عباسؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ :’’ ایک کالی عورت خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے (بسااوقات) مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میرا ستر کھل جاتاہے لہٰذا آپ اللہ سے میرے لئے دعا کریں ! آپﷺنے (یہ سن کر) ارشاد فرمایا: اگر تم چاہو تو اس پر صبر کرکے جنت لے لو اور چاہو تو میں اللہ سے تمہاری صحت و عافیت کے لئے دعا مانگوں۔ وہ عرض پرداز ہوئی : میں صبر تو کرلوں گی لیکن میرا سترکھلتا ہے لہٰذا آپ صر ف یہ دعا کریں کہ میر ا ستر نہ کھلے ، پھرآپ ﷺنے اس کے لئے یہ دعا مانگ لی ‘‘۔ اس لئے کہ صبر کے ساتھ اس آزمائش میں اس عورت کے لئے خیر تھی ا س لئے آپﷺنے اس کو اختیار دیا، پس ہم بھی اللہ کے حضور دست دعا بلند کرکے اللہ سے ہمیشہ کی خیر و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ كلمات في التداوي  

المشاهدات:1848

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جو تما م جہانوں کا پالنہار ہے ، اور میں اپنے نبی حضرت محمد، ان کی آل و عیال اور ان کے تمام جانثار صحابہ پر درود وسلام بھیجتاہوں ۔

امابعد……

امراض و اسقام ایک ایسی آزمائش ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کو آزماتا ہے اس لئے کہ اس میں بہت سی فوائد اور عبرتیں ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے سربستہ بھید ا ور حکمتیں ہیں جن کا ادراک حضرتِ انسان غورو تدبرا ور حسنِ نظر سے باآسانی کرسکتاہے ، اور یہ تو مشہو ر کہاوت ہے کہ :’’بسااوقات جسم بیماریوں سے بھی صحتیاب ہوجاتے ہیں‘‘۔اور بیماریوں کے ذریعے بندوں کو آزمانے میں ایک سب سے بڑی حکمت تویہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار ومولا کی طرف رجوع کریں تاکہ ان کے دل سب سے کٹ کر صرف اپنے پروردگار سے جڑ جائیں ، اس لئے کہ شفاء تو اسی کے ہاتھ میں ہے ، جیسا کہ ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے پرودگار کی مدحہ سرائی کرتے ہوئے فرمایا:(ترجمہ) ’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفادیتاہے ‘‘اسی لئے تومصیبتوں کا مارا اسے دل سے پکارتا ہے تاکہ جن بیماریوں میں وہ گھرا ہواہے ان سے اسے خلاصی عطاکرے۔

اوریہ بات قابل تعجب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ (بندوں سے) آزمائشوں کے ذریعہ دعا کو اور عطاء کے ذریعہ شکرکو نکالنا چاہتا ہے، وہب بن منبہ ؒ فرماتے ہیں کہ:’’افتاد و آزمائش اس لئے اتاری جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعے (بندے سے ) دعا نکالی جائے ‘‘۔اورانسان جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(ترجمہ) ’’اورجب اس کو کوئی برائی(پریشانی وتکلیف) چھوتی ہے تو پھر بڑی لمبی لمبی دعائیں مانگتاہے‘‘۔اور ان انبیاء کی سیرت میں جن کے نقشِ قدم پر چلنے کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے ان میں حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسی بیماری میں مبتلا کیا ، کہ جب وہ بیماری طول اورشدت اختیار کرگئی تو وہ اپنے پروردگارکے حضور گڑگڑاکر دوہائی دینے لگے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) ’’اور اس وقت کا تذکرہ سنو! جب ایوب نے اپنے پرودگار کو پکارا کہ (اے میرے رب) مجھے تکلیف نے چھوا ہے اورتو سب رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والاہے‘‘۔تو (اس پر)کریم و منان ذات نے بھی ان کی فریادرسی کی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ)’’پس ہم نے ان کی پکار پر لبیک کہا اور ان کو لاحق تکلیف کو ان سے دورکیا‘‘۔

لہٰذا مقاصد کو پانے کا سب سے بڑا وسیلہ دعا ہی ہے ، کتنے ایسے بیمار ہیں جب ان کی بیماری طول اختیار کرگئی اور ا ن کی آزمائش بڑھ گئی اورانہوں نے اللہ کے سامنے اپنا شکوہ بلند کیا تو فوراََ ان کے پاس اللہ کی طرف سے آسانی اور رحمت کا نزول ہوا۔

ایک شاعر کہتاہے :(جس کا ترجمہ ہے)

’’اس مریض سے کہو کہ جب طب کے سارے فنون اس کو شفاء دینے سے عاجز آگئے او ر اس کے بعد اس نے بیماری سے نجات اور عافیت پائی تو کس نے اسے عافیت دی‘‘؟

اورکتنی تعجب کی بات ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے فیصلہ بھی پلٹ لیا،یعنی جب ان کو بیماریاں گھیرتی ہیں تو ان کے دل ظاہری اسباب کی طرف چلے جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں حالانکہ وہی شفا دینے والا ہے اس کے سوا کوئی نہیں شفا دینے والا۔ تمہیں (یہاں) کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے کہ جب ان کو بیماریاں گھیرتی ہیں تو ان کے دل فوراََ ڈاکٹروں اور دارُو دُرمل کی طرف چلے جاتے ہیں، اور انہی سے بیماری کے دور ہونے اور شفاء کی امیدیں وابستہ کردیتے ہیں، اور پھر وہ ان کو خدائی کے درجے میں رکھ دیتے ہیں، تو پھر جن بیماریوں نے ان کو گھیرا ہوتا ہے اس سے زیادہ خطرناک ان کے دلوں کا بگاڑ اور فسادہے ۔

شاعر کہتا ہے (جس کا ترجمہ ہے):-

’’اس طبیب سے پوچھو جسے موت کے ہاتھوں نے اچک لیا کہ اے بیماریوں کے علاج کرنے والے کس نے تمہیں موت کی نیند سلادیا؟‘‘

اور ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ویرانوں اور بیابانوں کی خاک چھانی، اور جنہوں نے صحرا نوردی کی اور سمندروں کی موجو ں کو چاک کیا ،اور پورب و پچھم میں شہردر شہرگھومے پھرے (محض) جادوگروں اور شعبدہ بازوں سے ملنے کے لئے ، اور انہی سے مصیبت اور تکلیف  کے دور کرنے کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، تو اس طرح انہوں نے ان کے جسموں کو ٹھیک کر نے کے لئے ان کے دل برباد کردئیے، اور آخر کا ر ان کے دل بھی بربادہوجاتے ہیں اور ان کے جسم بھی کمزور ہوجاتے ہیں ۔ ارشا د باری تعالیٰ ہے(ترجمہ) ’’اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات کے کچھ لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے اس طرح ان لوگوں نے جنات کو اور سر چڑھا دیا تھا‘‘ ۔لہٰذا جو بھی شخص نجومی ، جادوگر یا کاہن کے پاس آئے اور پھر وہ اپنی پوچھی گئی بات میں اس کی تصدیق کرے تو یقینا اس نے اس شریعت کا انکا ر کیا جومحمدپر اتاری گئی ہے ، اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے غافل ہوگئے ہیں اس لئے ان کو ان کی جانوں کے سپرد کردیا گیا اور ان کے دل اللہ سے نہیں جُڑے ،  اور اگر وہ ذرا بھی ہوش کے ناخن لیں تو اچھی طرح اس بات کو جان لیں گے کہ سارے کے سارے امور تو صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہی ہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(ترجمہ) ’’ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو مصیبت کو دور کرے ‘‘۔ اور اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں (ترجمہ)’’اور جو اللہ پر توکل کرتاہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتاہے ‘‘۔یعنی جو بھی گردشِ دوراں اور حوادثِ زمانہ میں اللہ پر بھروسہ کرتاہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتاہے اور جو معاملہ اسے پریشان کرتاہے اللہ اس میں اس کے لئے کافی ہوجاتاہے ، لہٰذا ہر مصیبت زدہ کے لئے میری نصیحت ہے چاہے وہ بیمار ہو یا کسی اور تکلیف میں ہوتو وہ اپنا دکھڑا اس اللہ کو سنائے جو ہر رات اسے آواز دے کر پکار تاہے ’’کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا پوری کروں ؟کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے عطاکروں ؟کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اس کی بخشش کروں ؟‘‘۔

شاعر کہتا ہے (جس کا ترجمہ ہے)

ــتمہیں جو بھی حاجت درکار ہو تو صرف خدائے رحمن پر بھروسہ کر کیونکہ ایک وہی ہے جو حاجتوں کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘‘۔

اسی طرح میں ان کو صبر کا دامن تھامنے، اچھے حالات کا انتظار کرنے ، اور اللہ کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے کی بھی نصیحت کرتاہوں ، کیونکہ کتنی ایسی مصیبتیں ہیں جو مصیبت زدہ کے لئے دنیا و آخرت میں خیر وعافیت سے زیادہ بہترہیں، امام بخاریؒ نے (۵۶۵۲) اور امام مسلمؒ نے (۲۵۷۶) میں حضرت ابن عباسؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ :’’ ایک کالی عورت خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے (بسااوقات) مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میرا ستر کھل جاتاہے لہٰذا آپ اللہ سے میرے لئے دعا کریں ! آپنے (یہ سن کر) ارشاد فرمایا: اگر تم چاہو تو اس پر صبر کرکے جنت لے لو اور چاہو تو میں اللہ سے تمہاری صحت و عافیت کے لئے دعا مانگوں۔ وہ عرض پرداز ہوئی : میں صبر تو کرلوں گی لیکن میرا سترکھلتا ہے لہٰذا آپ صر ف یہ دعا کریں کہ میر ا ستر نہ کھلے ، پھرآپ نے اس کے لئے یہ دعا مانگ لی ‘‘۔

اس لئے کہ صبر کے ساتھ اس آزمائش میں اس عورت کے لئے خیر تھی ا س لئے آپنے اس کو اختیار دیا، پس ہم بھی اللہ کے حضور دستِ دعا بلند کرکے اللہ سے ہمیشہ کی خیر و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

كلمات في التداوي

 

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83550 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78517 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72823 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60769 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55160 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52327 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49605 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات48358 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44942 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44254 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف