×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / مالش / مساج کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

محترم جناب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مساج اور مالش کا کیا حکم ہے؟ حكم التدليك

المشاهدات:3114

محترم جناب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مساج اور مالش کا کیا حکم ہے؟

حــكم الـتـدلـيك

الجواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

اما بعد۔۔۔

مساج دو قسم کی ہوتی ہے:۔

پہلی قسم: ایسی مالش جو علاج کے لئے ہو اور طبیب پٹھوں میں کمزوری کے علاج کے طور پر بتائے یا اس کے علاوہ کوئی اور طبی غرض ہو۔ یہ صورت جائز ہے ، کیونکہ یہ دواء اور علاج کے قبیل میں سے ہے جس کا اصل حکم اباحت والا ہے ۔ لیکن شرمگاہ کی حفاظت پھر بھی واجب ہے نظر سے بھی اور مس کرنے سے بھی یعنی چھونے سے بھی گریز کرنا ضروری ہے الّا یہ کہ ضرورت شرمگاہ کو منکشف کرنے کا تقاضہ کرے لیکن اس صورت میں بھی ضرورت کے مقدار ہی منکشف کی جائے گی اور مس میں بھی اس کی رعایت کی ضروری ہے اور اسی طرح اتنی دیر کے لئے ہی منکشف کرنا جائز ہوگا جتنی دیر میں حاجت پوری ہو جائے۔ یہ سب احتیاط اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘۔اور اسی آیت میں اللہ نے مؤمن عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘۔ (النور: ۳۱)۔ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’اور وہ (یعنی مؤمن) جو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے ہیں ، مگر اپنی بیویوں کے لئے یا اپنی باندیوں کے لئے اس حالت میں کہ ان پر کوئی ملامت بھی نہیں‘‘۔ (المؤمنون : ۶،۵)۔

اور امام احمد نے (۱۹۵۳۰) اور امام ابوداؤد نے (۴۰۱۷) اور امام ترمذی نے (۲۷۶۹) جیّد سند کے ساتھ بھز بن حکیم عن ابیہ عن جدّہ کے طریق سے روایت کی ہے کہ جب نبی سے شرمگاہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اپنی شرمگاہ کا اپنی بیوی اور باندی کے علاوہ سب سے حفاظت کرو‘‘۔ تو کہا گیا جب مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہو؟ فرمایا: ’’اگر ایسا ممکن ہو کہ اسے کوئی بھی نہ دیکھے تو ایسا ہی کرے‘‘۔ امام بخاری ؓ نے اس روایت کا بعض حصہ تعلیقاََ ذکر کیا ہے اور صحیح مسلم میں (۳۳۸) ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا: ’’ کوئی مرد دوسرے مرد کی شرمگاہ نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کی شرمگاہ دیکھے، اور کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک لحاف میں نہ رہے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک لحاف میں رہے‘‘۔ یہ حدیث دوسرے بدن کو چھونے کی حرمت پر دلالت کر رہی ہے۔

دوسری قسم: چستی کے لئے مساج کرانا، بعض لوگ جسم میں چستی اور نشاط کے لئے مالش کرواتے ہیں یا پھر بغیر حاجت کے لئے صرف لذت حاصل کرنے کے لئے ۔ اس قسم کی مالش کا حکم یہ ہے کہ اگر شرمگاہ کا منکشف ہونا یا اس کو مس کرنا نہ ہو اور نہ ہی طبعی ہیجان یا شہوت زدگی ہو تو یہ جائز ہے اور اس پر أجرت لینا بھی جائز ہے۔ لیکن میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہاتھ سے مالش کروانے کی بجائے مساج والی مشین سے مالش کی جائے کیونکہ اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے نہ ہی کشف عورت کا اور نہ ہی مس باشہوت کا ۔ واللہ اعلم

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

16/  9 /1424هـ


المادة التالية

الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127316 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62457 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58508 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55640 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55145 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51734 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49864 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44151 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف