×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / کسی شخص کا قول یا فعل اس کی غیر موجودگی میں ذکر کرنا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

محترم جناب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ہم مدرسہ کی طالبات ہیں اور اپنی استانیوں کا بہت احترام کرتی ہیں اور اللہ کے لئے ان سے محبت رکھتی ہیں، لیکن کبھی کبھار ہم ان کی نقل اتارتی ہیں جبکہ ہمارا مقصد مذاق اڑانا بالکل نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف مزاح اور ان سے محبت کی وجہ سے ہوتا ہے تو کیا یہ غیبت میں شمار ہوگا؟ حكاية قول شخص أو فعله في غيبته

المشاهدات:1423

محترم جناب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ہم مدرسہ کی طالبات ہیں اور اپنی استانیوں کا بہت احترام کرتی ہیں اور اللہ کے لئے ان سے محبت رکھتی ہیں، لیکن کبھی کبھار ہم ان کی نقل اتارتی ہیں جبکہ ہمارا مقصد مذاق اڑانا بالکل نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف مزاح اور ان سے محبت کی وجہ سے ہوتا ہے تو کیا یہ غیبت میں شمار ہوگا؟

حكاية قول شخص أو فعله في غيبته

الجواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

اما بعد۔۔۔

کسی شخص کی بات یا ہیئت کی نقل اتارنا اگر کسی مصلحت کی بناء پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بخاری (۳۴۷۷) اور مسلم(۱۷۹۲) نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’گویا میں نبی کی طرف دیکھ رہا ہوں اور وہ انبیاء میں سے ایک نبی کی نقل اتار رہے ہیں ، وہ نبی جن کو ان کی قوم نے مارا حتی کہ وہ جان دے بیٹھے ، اس حالت میں کہ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اے اللہ ! میری قوم کی بخشش فرما دے چونکہ وہ علم نہیں رکھتے‘‘۔ اور اسی طرح بعض صحابہ ؓ نے آپ کی قرأت کی نقل اتاری۔ جیسا کہ عبداللہ بن مغفل نے آپ کی سورۃ الفتح کی قرأت کی نقل اتاری جیسا کی بخاری (۷۵۴۱) میں مروی ہے اور نقل سے مراد یہاں یہ ہے کہ کسی فعل کی صورت میں یا کسی قول کے وصف میں نقل اتاری جائے۔

اور اگر کسی شخص کے قول یا فعل یا اس کی صورت بنا کر نقل اسی لئے اتاری جائے کہ ہنسنا ہنسانا مقصود ہو تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ یہ باعث تکلیف اور مذاق اڑانے کی صورتیں ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو! کوئی جماعت کسی دوسری جماعت (قوم) کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو‘‘۔ (الحجرات: ۱۱)۔ اور نبی نے فرمایا: ’’کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں‘‘۔ رواہ البخاری (۱۰) و المسلم (۴۰)۔ اس حدیث کو عبداللہ بن عمر ؓ نے روایت کیا ہے ۔ اور اہل علم کی ایک جماعت نے تو نقل اتارنے کو بھی غیبت میں شمار کیا ہے جیسا کی صاحب کتاب ’الزواجر عن اقتراف الکبائر‘ (۳۴/۲) اور صاحب کتاب ’کشاف القناع‘ (۴۲۳/۶) نے ذکر کیا ہے۔ کیونکہ یہ آپ کے اس قول میں داخل ہے، فرمایا: ’’کیا تمہیں پتہ ہے غیبت کیا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا: تمہارے اپنے بھائی کا ایسا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو‘‘۔ یہ روایت مسلم (۲۵۸۹) نے ابو ہرہ ؓ سے نقل کی ہے۔

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

 30 /12 /1425هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127577 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62672 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59222 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55710 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55179 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52041 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50022 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45031 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف