حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
ایک اجنبی مرد کے لئے کسی اجنبی عورت کو اس طرح کے الفاظ سے بلانا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ مردوں کا عورتوں کو اس طرح مخاطب کرنا معروف نہیں ہے، اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ایک مرد کے لئے غیرمحرم عورت کو مخاطب کرنے کا انداز اللہ تعالیٰ کے اس ارشادِ گرامی کے مطابق ہونا چاہئے: ’’لہٰذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو، کبھی کوئی شخص بے جا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے اور وہ بات کہو جو بھلائی والی ہو‘‘۔ (الاحزاب:۳۲) یہ حکم تو بظاہر عورت کی طرف متوجہ ہے لیکن مردوں کا عورتوں کے ساتھ بات کرتے وقت یہ حکم مردوں کی طرف بھی متوجہ ہے۔
لہٰذا آپ کا ایک عیسائی نرس کو ’میری جان‘ کہہ کر بلانا اسی نزاکت والی بات کے قبیل میں سے ہے جو فتنہ و فساد کا باعث ہے۔ اگر چہ آپ کا قصد و ارادہ اس طرح نہ ہو(لیکن اس سے فتنہ و فساد ہی پھیلتا ہے)۔ اس لئے میری آپ کو یہ ہمدردانہ نصیحت ہے کہ اس طرھ کے کلمات چھوڑ دیں کہ شیطان انسان میں اس طرح گردش کرتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کرتا ہے۔ لہٰذا نرمی و نزاکت سے حتی الامکان دور رہیں اس لئے کہ اگر آپ اپنے آپ کی گارنٹی دے بھی دیں تو جو عورت اس طرح کی باتوں کو سنتی ہے تو اس کی آپ گارنٹی نہیں دے سکتے اور اس طرح کے الفاظ اس کے دل میں ضرور اثر پذیر ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر کی توفیق عطاء فرمائے۔
آپ کا بھائی
أ.د.خالد المصلح