×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / کچھ سوالات اس حوالےسےکہ رمضان کےثبوت میں چاندکی رؤیت کا اعتبارہےیاحساب کا ،اوررمضان کےختم ہونےمیں ریاست کی خلاف ورزی جائزہےیانہیں ؟

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

سوال ۱:کیا کسی ملک والوں کےلئے جائز ہے کہ فلکیاتی حساب سے رمضان اورعیدالفطر معتبرسمجھے اور رؤیت کا اعتبارنہ کرے ؟ سوال ۲:کیا کسی ملک میں اگر اس مذکورہ فلکیاتی حساب سے عید کا دن ہواور کسی کے اپنے روزے ابھی تک پورے نہیں ہوئے تو کیا ان کی مخالفت کرکے اپنے روزے پورے کرے یا ان کےسا تھ شریک ہو کرافطارکرکے نمازعیدمیں شریک ہو؟ مسائل حول ثبوت رمضان بالحساب ومخالفة الدولة في خروجه

المشاهدات:1504

سوال ۱:کیا کسی ملک والوں کےلئے جائز ہے کہ فلکیاتی حساب سے رمضان اورعیدالفطر معتبرسمجھے اور رؤیت کا اعتبارنہ کرے ؟ سوال ۲:کیا کسی ملک میں اگر اس مذکورہ فلکیاتی حساب سے عید کا دن ہواور کسی کے اپنے روزے ابھی تک پورے نہیں ہوئے تو کیا ان کی مخالفت کرکے اپنے روزے پورے کرے یا ان کےسا تھ شریک ہو کرافطارکرکے نمازعیدمیں شریک ہو؟

مسائل حول ثبوت رمضان بالحساب ومخالفة الدولة في خروجه

الجواب

بسم اللہ الرحمان الرحیم

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

 جواب ۱:مذکورہ مسئلہ میں علما کا اختلاف ہے۔ بعض حضرات توہر حال میں رؤیت کااعتبار کرتے ہیں اوربعض حضرات بالکل رؤیت کوروانہیں سمجھتے اوربعض حضرات کچھ تفصیل سے کام لیتے ہیں،اوریہی تیسراموقف راجح ہے اوروہ یہ ہے  کہ رؤیت کی نفی میں توحساب کااعتبار ہوگا اوررؤیت کے ثبوت میں نہیں ۔ لہذاجب فلکیاتی  حساب سے ثبوت یقینی ہو تو اس وقت رؤیت کااعتبار نہیں کریں گے ۔کہ حساب کچھ اوربتارہا ہو اوراس حال میں کوئی بندہ آکر چاند دیکھنےکی گواہی دے تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی ۔البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس گواہی کارد کرنا اس بنیاد پر نہیں کہ ھم فلکیا تی حساب کوحتمی سمجھتےہیں بلکہ یہ گواہی اس بنا پر ردہوئی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ چاند موجود ہولیکن دیکھنے کے قابل نہ ہو اس لئے کہ چاند کادیکھنا اورچیز ہےاورچاند کی ولادت الگ چیز ہے دیکھنے کے لئے صرف ولادت ہونا کافی نہیں بلکہ اس کاقابل رؤیت ہونا بھی ضروری ہے۔

باقی رہا آپ کاروزہ رکھنا  نہ رکھنا تو اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جہاں آپ کی سکونت ہےوہاں کے لوگ اگر روزہ رکھے ہوئے  ہوتو آپ ان کے ساتھ روزے میں شریک ہو اور اگر افطار کئے ہوئے ہوتو آپ بھی ان کےساتھ افطار میں شریک ہوکیونکہ ابوداؤد اورترمذی میں روایت ہے کہ حضرت ابوہٰرہرہ ؓ نبی علیہ السلام کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ روزہ اس دن ہوگا جس دن تم روزہ رکھو اورافطار اس دن کامعتبر ہوگا جس دن تم افطار کرواوراضحی اس دن کرو جس دن لوگ عید الاضحٰی منائے ۔اس طرح حضرت عائشہ ؓ سے ایک حدیث منقول ہے کہ عید الفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرواوبقرعید اس دن ہوگی جس دن تم بقرعید مناؤ  اورامام ترمذی نے اپنےجامع میں لکھا ہے کہ روزے اورافطار کااعتبار مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہوگا۔

جواب ۲:مذکورہ جواب سے بھی معلوم ہوا کہ روزہ اور افطار میں اعتبار علاقوں والوں کے حساب سے ہوگا اوران کی مخالفت جائز نہیں ہوگی۔ امام احمد ؒسےایک روایت میں نقل ہے کہ امام کےساتھ روزہ رکھا جائے اورمسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہی موافقت کرے خواہ مطلع صاف یا ابر آلود ہوکیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔


المادة التالية

الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127571 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62666 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59200 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55709 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55177 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52030 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50018 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45026 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف