×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / افطاری کے وقت کا ذکر

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

کیا افطاری کے وقت کا کوئی مخصوص ذکر ثابت ہے ؟ اور کیا روزےدار اذان کا جواب دے یا اپنی افطاری کرے ؟ الذكر عند الإفطار

المشاهدات:1573

کیا افطاری کے وقت کا کوئی مخصوص ذکر ثابت ہے ؟ اور کیا روزےدار اذان کا جواب دے یا اپنی افطاری کرے ؟

الذكر عند الإفطار

الجواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے

اس مسئلہ کے دو حصہ ہیں :

پہلا حصہ : اس سوال کے متعلق کہ ( کیا افطاری کے وقت کا کوئی مخصوص ذکر یادعاءثابت ہے ؟)

ایسا کچھ ثابت نہیں سوائے جو ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب روزہ کھولتے تو فرماتے : «ابتلت العروق وذهب الظمأ وثبت الأجر إن شاء الله»، یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور یہ روایت ان سے مرفوع بھی اور موقوف بھی وارد ہے ،اور مرفوع روایت میں کوئی حرج نہیں  اور یہ روایت سب سے بہتر روایت ہے افطار کے وقت کے دعاوں کے باب میں

اور جہاں تک اس دعاء کی بات ہے کہ روزےدار روزہ  کھولتے وقت یہ دعا پڑھے (اللهم لك صمنا وعلى رزقك أفطرنا) یا اسکے قریب قریب کوئی دعاء تو یہ ساری دعائیں کسی صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ کوئی سند ان کی تقویت کرتاہے ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ کہ اس مسئلہ میں وسعت ہے ۔ پس اگر کوئ ثابت شدہ دعا پڑھ لیں جیسے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہ حدیث میں ہے یا اسکے علاوہ جوبھی دعاء وہ چاہے تو اس مسئلہ میں وسعت ہے ۔

اور جہاں تک اس سوال کی بات ہے کہ افطار کے وقت افطاری کرنا افضل ہے یا اذان کاجواب دینا ۔تو ان دونوں مسئلوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ چناچہ جب مؤذن آزان کہے تو افطاری شروع کرلے اور اسکے بعد اذان کا جواب دے ۔ افطاری شروع کرنے کا مطلب ہے کہ افطاری میں جلدی کرے کیونکہ صحيحين میں سهل بن سعد رضي الله عنه کی روایت منقول ہے حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: « جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرینگے تب تک لوگ خیر سے ہونگے »، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ افطاری میں جلدی کرنا افضل ہے

اور یہ فضیلت کب سے شروع ہوتی ہے ؟ یعنی کہ افطاری میں جلدی کرنا کب مستحب ہے اور خیر کی بنیاد ہے،جیسے کے سهل بن سعد رضي الله عنه کی روایت میں ہے ؟یہ تب ہوگا جب اس شخص کو یقین ہوجائے یا پھر غالب گمان ہو کہ سورج ڈوب گیا ہے ۔ پس اگر یقین ہوجائے یا پھر غالب گمان ہو کہ سورج ڈوب گیا ہے– اور ہم غالب گمان کا کہتے ہیں جب یقین کا امکان نہ ہو ۔ سو اس وقت اس شخص کے لیے  مستحب ہے کہ وہ افطاری میں جلدی کرے ایک کجھور یا پانی کے ساتھ  ۔ اور کوئی حرج نہیں کہ اسی دوران میں اذان کا جواب بھی دیتا رہے سو اس طرح یہ اس شخص دو حدیثوں کو ایک ساتھ جمع کرنے والا ہوگا جو ابو سعید رضي الله عنه کی روایت ہے صحیحین میں کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: «اگر تم مؤذن کو سن لو تو ویسے ہی کہو جیسے کہ مؤذن کہتا ہے»،اور سهل بن سعد رضي الله عنه کی روایت ہے کہ « جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرینگے تب تک لوگ خیر سے ہونگے »، یاد رہے کہ افطاری میں جلدی کرنا ایک دفعہ سے ہوجاتا ہے ۔ یعنی اگر وہ ٹہرا رہے اوراذان کا جواب دے اگر مؤذن اذان ٹہر ٹہر کر پڑھتا ہوتو اس وقت اذان کا جواب دے اور پھر اپنی افطاری کرے۔ اور اس مسئلہ میں بہت وسعت ہے ۔


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127303 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62443 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58481 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55639 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55144 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51720 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49857 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44093 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف