×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / لڑکیوں کا کسی مرد کے پاس خصوصی تدریسی نشستوں میں پڑھنا یا اس کے برعکس

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

محترم جناب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔ لڑکیوں کا پڑھائی کی خصوصی نشستوں میں مردوں کے پاس پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ اور اسی طرح لڑکوں کا ایسی نشستوں میں عورتوں کے پاس پڑھنا؟ الدروس الخصوصية للفتيات عند رجل والعكس

المشاهدات:1678

محترم جناب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔ لڑکیوں کا پڑھائی کی خصوصی نشستوں میں مردوں کے پاس پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ اور اسی طرح لڑکوں کا ایسی نشستوں میں عورتوں کے پاس پڑھنا؟

الدروس الخصوصية للفتيات عند رجل والعكس

الجواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

اما بعد۔۔۔

اس طرز کی مخصوص نشستوں کا عرف میں آجانا تعلیمی نظام کی کمزوری اور ناکامی کی نشانی ہے چاہے اس کمزوری اور خلل کی وجہ تعلیمی طریقے اور معلمین ہوں یا طلباء و طالبات اور ان کے خاندان ہوں۔

تحقیق سے تو یہی بات سامنے آئی ہے کہ اس طرح کی نشستوں کا عرف میں آجانے کا نقصان زیادہ ہے بنسبت ان فوائد کے جو ان سے حاصل ہوں۔ ان نقصانات میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے جب ان نشستوں میں لڑکیوں کی تعلیمی ذمہ داری مرد کے سپرد کردی جائے یا لڑکوں کی پڑھائی کی ذمہ داری کسی خاتون کو سونپ دی جائے ۔ اور ان مفاسد اور نقصانات کا تحقق صرف اسی صورت تک محدود نہیں کہ جب ایسی مجالس میں خلوت ہو بلکہ بعض تو ایسے نقصانات ہیں جن کا تعلق شریعت سے ہے اور بعض کا تعلق تربیت سے ہے ان مفاسد کو بعض صاحب اختصاص لوگ ہی محسوس کرسکتے ہیں ۔ شرعی نقصانات جو کہ ان نشستوں سے واقع ہوتے ہیں وہ یہ کہ فتنے کا اندیشہ رہتاہے اور فتنہ میں واقع ہونے میں عمر کی کسی قید یا فرق کا دخل نہیں ہے ، چاہے طالب علم اور پڑھانے والی خاتون میں عمر کا خاصا فرق ہو یا اس کے برعکس معاملہ ہو تو بھی یہ اندیشہ رہتاہے اور دیکھنے میں بھی یہی آیا ہے اور خاص طور پر ایسی مخصوص نشست میں طالب علم اور استانی کے درمیان کافی قربت ہوتی ہے ، کلام کے اعتبا رسے نرمی ، بدنی قربت اور دیگر ایسے عوامل ہوتے ہیں جو کہ اجنبی مرد اور عورت کے درمیان قطعا جائز نہیں ۔

یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں بلکہ دیکھنے میں کچھ ایسے خطرناک واقعات آئے ہیں جن کی ابتداء محض تعلیمی نشستوں ہی سے ہوئی مگر نتیجہ قابل بیان نہیں ۔ اسی وجہ سے شریعت ، وحی اور تجربہ کی روشنی میں میل فیمل اساتذہ اور طلباء وطالبات اور ان کے والدین کو میں سختی سے متنبہ کرنا چاہتاہوں کہ وہ اس معاملہ میں بالکل نرمی سے کام نہ لیں ، میری نظر میں یہ واجب ہے کہ ایسی خصوصی مجالس میں ایسے معلم کا انتخاب ہی کیا جائے جو اس جنس کا ہو۔ لہٰذاطالبات کو خواتین پڑھائیں اور طلباء کو مرد اساتذہ پڑھائیں۔

آخرمیں اللہ سے دعا ہے کہ سب کو خیر کی توفیق دے اور ہمارے بیٹے بیٹیوں کی حفاظت فرمائے اور ہمارے مردعورتوں کو ہر شر سے محفوظ فرمائے اور ان سب کے لئے توفیق اور کامیابی مقدر کردے۔

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

12 / 3 / 1435 هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127708 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62713 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59357 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55720 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55188 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52094 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50047 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45055 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف