×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / گناہِ صغیرہ پر ڈٹے رہنازُلفیں بڑھانے کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

صد قابل احترام۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا زلفیں بڑھانا سنت رسولﷺ ہے ؟ حكم إطالة شعر الرأس وهل إطالته سنة عن النبي صلى الله عليه وسلم

المشاهدات:2531

صد قابلِ احترام۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا زُلفیں بڑھانا سنتِ رسولﷺ ہے ؟

حكم إطالة شعر الرأس وهل إطالته سنة عن النبي صلى الله عليه وسلم

الجواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاتہ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال میں یہ کہتے ہیں کہ

 اہلِ علم کی ایک بڑی جماعت (جن میں امام احمدؒ سرِ فہرست ہیں) کا کہنا ہے کہ زُلفیں رکھنا سنتِ رسول ہے، ان حضرات کا استدلال اس حدیث مبارکہ سے ہے جس میں یہ وارد ہوا ہے کہ آپکے زُلفِ مبارک کانوں کی لو تک تھی اور بعض احادیث میں ہے کہ کاندھوں تک تھی جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث نمبر (۵۵۶۳) اور مسلم شریف کی حدیث نمبر (۲۳۳۸) میں حضرت انسؓ سے مروی ہے:  ’’آپکی زُلفِ مبارک کاندھوں تک تھی اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپکے گیسو مبارک کانوں اور کندھے کے درمیان تک تھے اور ایک اور روایت میں ہے کہ نصف کانوں تک تھے‘‘۔

اور اہلِ علم کی دوسری جماعت کا یہ کہنا ہے کہ یہ عادات میں سے ہے یعنی آپنے اہلِ عرب کی عادت کو دیکھ کر اپنے گیسو دراز کئے،  یہی کتاب التمھید (۶/۸۰) میں ابن عبد البر نے فرمایا ہے کہ: ہمارے زمانہ میں بال صرف فوجی لوگ رکھتے ہیں، ان کے کندھوں تک لمبے لمبے بال ہوتے ہیں، اور اہلِ علم صلاح و اہلِ ستر و علم نے اس سے اعراض کیا ہے، اس لئے اب یہ صرف انہی کی علامت ہوکے رہ گئی،  بلہ آج کل تو ہمارے نزدیک بڑے بال بے وقوفوں کی علامت ہو کے رہ گئی، اور یہ تو اللہ کے لاڈلے رسولسے بھی مروی ہے کہ:  ’’جس نے جن لوگوں کی مشابہت اختیار کی اس کا حشر قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہوگا‘‘۔ اب اس حدیث کی رُو سے ایک قول یہ ہے کہ جس نے ان کے افعال میں ان کی مشابہت کی ان کا حشر ان کے ساتھ ہوگا، اور دوسرا قول یہ ہے کہ جس نے ان کی شکل و صورت اور ہیئت میں ان کی مشابہت اختیار کی ان کا حشر ان کے ساتھ ہوگا،  بہرکیف ! آپ کے لئے یہ کافی ہے کہ صالحین کی اقتداء کی جائے وہ چاہے جس حالت پر ہوں اس لئے کہ بال رکھنا یا بال مونڈھنا قیامت کے دن ذرا بھی فائدہ نہیں دے گا، اس لئے کہ اصل بدلہ تو نیت کے مطابق دیا جائے گا، کیونکہ بسا اوقات بال مونڈھنے والا بال رکھنے والے سے بہتر ہوتا ہے اور بسا اوقات بال رکھنے والا بال مونڈھنے والے سے بہتر ہوتا ہے۔

اس کی طرف ہمارے شیخ محمد عشیمینؒ نے اشارہ کیا ہے کہ بال رکھنا سنتِ رسولاور عبادت نہیں ہے بلکہ یہ تو بس عرف و عادت ہے۔

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

19/ 9 /1427هـ


المادة السابقة
المادة التالية

الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127708 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62715 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59358 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55720 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55188 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52094 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50047 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45057 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف