×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / ہفتے کے دن خصوصی طور پر روزہ رکھنے کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

ہفتے کے دن خصوصی طور پر روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ ما حكم إفراد يوم السبت بصوم

المشاهدات:1625

ہفتے کے دن خصوصی طور پر روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

ما حكم إفراد يوم السبت بصوم

الجواب

اما بعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

اس بارے میں دو طرح سے بات ہو گی:

پہلی بات تو یہ کہ رسول اللہ ؐ سے صرف ہفتے کے دن کا ایک روزہ رکھنے کے بارے میں نہی صحیح طور پر وارد ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے بھی تو ہم بعض صورتوں مثلاََ عرفہ کے روزے وغیرہ کی کیا توجیہ کریں گے؟

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے توہفتے کے دن کے روزے کی نہی کے بارے میں صماء بنت بسرؓ کی حدیث صحیح نہیں ہے، ائمہ متقدمین اور متأخرین کی ایک جماعت نے بھی یہ حکم لگایا ہے کہ اس حدیث میں اضطراب پایا جاتا ہے اور سند کے اعتبار سے یہ صحیح نہیں ہے۔ اور حدیث کے معنی اور متن کے اعتبار سے حدیث میں نکارت پائی جاتی ہے، کیونکہ معنی تو یہ بنتا ہے کہ ہفتے کا روزہ علی الاطلاق ممنوع ہے چاہے اس کا ساتھ دوسرا روزہ ملایا جائے یا نہیں،  لہذا اس بات پر اجماع منعقد ہے کہ یہ ٹھیک نہیں، اور یہ معنی غیر ثابت ہے کیونکہ بہت سی احادیث میں اس سے ایک دن پہلے کا روزہ ثابت ہے ((جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو مگر اس صورت میں کہ اس سے پہلے ایک دن روزہ رکھو یا اس کے بعد)) یہ حدیث صحیحین میں ابو ہریرہؓ سے مروی ہے اور جویریہ ؓ اور دیگر صحابہ سے بھی۔

مقصود یہ ہے کہ ہفتے کے دن کا روزہ ایک اور دن ساتھ ملا کر رکھا جائے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں بلکہ احادیث ہفتے کا روزہ دوسرے دن کے ساتھ ملا کر رکھنے کے صحیح ہونے کے بارے میں واضح ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ حدیث مطلقاََ اس دن کا روزہ نہ رکھنے کا بھی معنی دے رہی ہے یہاں تک کہ اگر وہ کسی دوسرے روزے کے ساتھ ملا کر بھی رکھا جائے، فرض روزے کے علاوہ،لہذا حدیث میں اسناد ،معنی اور متن تینوں کے اعتبار سے اشکال ہے۔

اور جس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے تو وہ اس کو صرف ہفتے کے دن کا روزہ رکھنے پر محمول کرتے ہیں، اور یہاں ہم یہ کہیں گے کہ حدیث کو صحیح کہنے کی صورت میں نہی کو محمول کیا جائے گا اس صورت پر کہ اکیلے ہفتے کے دن کا بالخصوص روزہ رکھا جائے، اور اگر یہ روزہ ایسے دن آ گیا جو اس شخص کے معمول میں آ رہا ہو مثال کے طور پر وہ ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن نہیں اور ایسے میں ہفتے کے دن کا روزہ آ جائے یا وہ عاشوراء کا روزہ رکھتا ہے اور وہ ہفتے کے دن کا بنتا ہو یا کوئی اور ایسی صورت ہو جس کی کوئی ایسی مناسبت یا کوئی ایسا سبب ہو تو ایسی صورت میں کوئی ممانعت نہیں کیونکہ اس نے ہفتے کے دن کو عمداََ خاص نہیں کیا بلکہ کسی اور وجہ سے روزہ رکھا اور اس دن بالاتفاق آن پڑا تو اس پر نہی کے بارے میں کوئی دلیل نہیں۔

تو دونوں صورتوں میں ہفتے کے دن کا روزہ اگر بالاتفاق معمول میں آ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، معمول چاہے عرفہ کی صورت میں ہو یا ماہانہ تین روزوں کی صورت میں یا کوئی اور ایسی صورت ہو۔

راجح یہی ہے کہ کوئی کراہت نہیں اور صرف ہفتے کے دن کا روزہ رکھنے کے بارے میں کوئی ممانعت بھی نہیں کیونکہ حدیث وارد صحیح نہیں ہے


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127316 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62456 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58507 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55640 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55144 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51732 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49864 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44151 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف