×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / کسی عالم کے ہاتھ کا بوسا لینے کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

علماء اور دیگر کے ہاتھ کا بوسا لینے کا کیا حکم ہے؟ حكم تقبيل يد العالم

المشاهدات:1458

علماء اور دیگر کے ہاتھ کا بوسا لینے کا کیا حکم ہے؟

حكم تقبيل يد العالم

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 سلف اور بعد کے جمہور علماء جن میں احناف، شوافع اور حنابلہ کے فقہاء شامل ہیں ان سب کے ہاں کسی عالم، والد، استاد یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ کا بوسہ لینا جو صاحب فضل ہو جائز ہے اگر یہ اکرام اور خوشنودی کیلئے ہو، جبکہ امام مالکؒ کے ہاں سلام کرتے وقت عالم کے ہاتھ کا بوسہ لینا مکروہ ہے، فواکہ الدوانی میں لکھا ہے (۳۲۶/۲): ’’ظاہر الکلام یہ ہے کہ جس کا ہاتھ چوما جا رہا ہے وہ چاہے عالم ہو، شیخ ہو، سید ہو، والد موجود ہو یا سفر سے آیا ہو، یہی ظاہر مذہب ہے‘‘ یعنی مالکیہ کا، اور بعض اہل علم نے تو مستقل رسالہ میں اہل علم کے آثار جمع کئے ہیں، ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں (۵۷/۱۱): ’’حافظ ابوبکر بن مقری نے ایک رسالہ میں ہاتھ چومنے سے متعلق جیسا کہ ہم نے سنا ہے بہت ساری احادیث اور آثار جمع کئے ہیں، ایک اچھی حدیث زارع العبدی کی ہے وہ عبد القیس کے وفد میں تھے، کہتے ہیں: ہم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے تاکہ نبیکے ہاتھ اور پاؤں چوم سکیں (ابوداؤد)۔ اسی طرح مزیدہ العصری کی حدیث بھی ہے، اوراسامہ بن شریک کی حدیث ہے کہتے ہیں: ہم نبی کی طرف گئے اور آپ کے ہاتھ چومے، اس کی سند قوی ہے۔ اسی طرح جابر ؓ کی حدیث ہے کہ عمر ؓ اٹھے اور نبی کے ہاتھ کا بوسہ لیا، اور اسی طرح بریدہ کی حدیث جس میں اعرابی اور درخت والا قصہ ہے، کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے میں آپ کے سر کا اور قدموں کا بوسہ لوں تو آپ نے اجازت دے دی۔ بخاری نے ادب مفرد میں عبد الرحمان بن رزین کی روایت ذکر کی ہے کہتے ہیں کہ سلمہ بن اکوع نے اپنی ہتھیلی آگے کی گویا وہ کسی اونٹ کی ہتھیلی ہو تو ہم نے اس کا بوسہ لیا، اسی طرح ثابت سے مروی ہے کہ انہوں نے انسؓ کے ہاتھ کا بوسہ لیا، یہ بھی ذکر کیا کہ علی ؓ نے عباس ؓ کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا، یہ ابن المقری نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور ابو مالک الاشجعی کے طریق سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ابن ابی اوفی سے کہا: مجھے اپنا ہاتھ دکھائے جس سے آپ نے نبیسے بیعت کی تھی تو انہوں نے مجھے دکھایا تو میں نے اسے بوسہ دیا۔

میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں جب تک جس کا بوسہ لیا جا رہا ہے اس کے فتنے میں پڑنے کا خدشہ نہ ہو۔ اور جو آپ کا ایک آدمی کو اپنا ہاتھ چومنے سے منع کرنے کے بارے میں وارد ہوا ہے اور آپ کا یہ کہنا: یہ تو آعاجم اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں میں تو تم میں سے ہی ایک آدمی ہوں، تو یہ حدیث ہے جسے طبرانی نے اوسط میں، بیہقی نے شعب میں اور ابویعلی نے اپنی مسند میں، ان سب نے یوسف بن زیاد الواسطی عن عبد الرحمان بن زیاد الافریقی عن الاغر بن ابی مسلم عن ابی ہریرہؓ کے طریق یہ روایت ذکر کی ہے، اور یوسف بن زیاد الواسطی اور ان کے شیخ یہ ضعیف ہیں۔ نیل الاوطار میں اس حدیث کے بارے میں شوکانی نے لکھا ہے (۱۰۳/۲): اس کا مدار یوسف بن زیاد الواسطی پر ہے جبکہ وہ ضعیف ہے، لہذا ایسی حدیث مذکورہ بالا آثار جو کہ اباحت اور جواز پر دلالت کر رہے ہیں ان کا مقابلہ نہین کرتی، واللہ اعلم

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

18/01/1425هـ

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 سلف اور بعد کے جمہور علماء جن میں احناف، شوافع اور حنابلہ کے فقہاء شامل ہیں ان سب کے ہاں کسی عالم، والد، استاد یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ کا بوسہ لینا جو صاحب فضل ہو جائز ہے اگر یہ اکرام اور خوشنودی کیلئے ہو، جبکہ امام مالکؒ کے ہاں سلام کرتے وقت عالم کے ہاتھ کا بوسہ لینا مکروہ ہے، فواکہ الدوانی میں لکھا ہے (۳۲۶/۲): ’’ظاہر الکلام یہ ہے کہ جس کا ہاتھ چوما جا رہا ہے وہ چاہے عالم ہو، شیخ ہو، سید ہو، والد موجود ہو یا سفر سے آیا ہو، یہی ظاہر مذہب ہے‘‘ یعنی مالکیہ کا، اور بعض اہل علم نے تو مستقل رسالہ میں اہل علم کے آثار جمع کئے ہیں، ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں (۵۷/۱۱): ’’حافظ ابوبکر بن مقری نے ایک رسالہ میں ہاتھ چومنے سے متعلق جیسا کہ ہم نے سنا ہے بہت ساری احادیث اور آثار جمع کئے ہیں، ایک اچھی حدیث زارع العبدی کی ہے وہ عبد القیس کے وفد میں تھے، کہتے ہیں: ہم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے تاکہ نبیکے ہاتھ اور پاؤں چوم سکیں (ابوداؤد)۔ اسی طرح مزیدہ العصری کی حدیث بھی ہے، اوراسامہ بن شریک کی حدیث ہے کہتے ہیں: ہم نبی کی طرف گئے اور آپ کے ہاتھ چومے، اس کی سند قوی ہے۔ اسی طرح جابر ؓ کی حدیث ہے کہ عمر ؓ اٹھے اور نبی کے ہاتھ کا بوسہ لیا، اور اسی طرح بریدہ کی حدیث جس میں اعرابی اور درخت والا قصہ ہے، کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے میں آپ کے سر کا اور قدموں کا بوسہ لوں تو آپ نے اجازت دے دی۔ بخاری نے ادب مفرد میں عبد الرحمان بن رزین کی روایت ذکر کی ہے کہتے ہیں کہ سلمہ بن اکوع نے اپنی ہتھیلی آگے کی گویا وہ کسی اونٹ کی ہتھیلی ہو تو ہم نے اس کا بوسہ لیا، اسی طرح ثابت سے مروی ہے کہ انہوں نے انسؓ کے ہاتھ کا بوسہ لیا، یہ بھی ذکر کیا کہ علی ؓ نے عباس ؓ کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا، یہ ابن المقری نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور ابو مالک الاشجعی کے طریق سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ابن ابی اوفی سے کہا: مجھے اپنا ہاتھ دکھائے جس سے آپ نے نبیسے بیعت کی تھی تو انہوں نے مجھے دکھایا تو میں نے اسے بوسہ دیا۔

میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں جب تک جس کا بوسہ لیا جا رہا ہے اس کے فتنے میں پڑنے کا خدشہ نہ ہو۔ اور جو آپ کا ایک آدمی کو اپنا ہاتھ چومنے سے منع کرنے کے بارے میں وارد ہوا ہے اور آپ کا یہ کہنا: یہ تو آعاجم اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں میں تو تم میں سے ہی ایک آدمی ہوں، تو یہ حدیث ہے جسے طبرانی نے اوسط میں، بیہقی نے شعب میں اور ابویعلی نے اپنی مسند میں، ان سب نے یوسف بن زیاد الواسطی عن عبد الرحمان بن زیاد الافریقی عن الاغر بن ابی مسلم عن ابی ہریرہؓ کے طریق یہ روایت ذکر کی ہے، اور یوسف بن زیاد الواسطی اور ان کے شیخ یہ ضعیف ہیں۔ نیل الاوطار میں اس حدیث کے بارے میں شوکانی نے لکھا ہے (۱۰۳/۲): اس کا مدار یوسف بن زیاد الواسطی پر ہے جبکہ وہ ضعیف ہے، لہذا ایسی حدیث مذکورہ بالا آثار جو کہ اباحت اور جواز پر دلالت کر رہے ہیں ان کا مقابلہ نہین کرتی، واللہ اعلم

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

18/01/1425هـ

 


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127316 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62457 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58508 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55640 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55145 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51734 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49864 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44151 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف