×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / عبادت کیا ہے؟ اور حدیث قدسی میں نبی ﷺ کے قول’’اور اس کا ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے‘‘ کا کیا مطلب ہے؟

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

تمام مخلوقات کیلئے سور پھونکے جانے کے اعتبار سے نفخہ صعق (بے ہوش کرنے والے نفخہ) اور نفخہ بعث (دوبارہ زندہ کئے جانے والے نفخہ) کے درمیان کتنا زمانی فاصلہ ہو گا؟عبادت کیا ہے؟ اور حدیث قدسی میں نبی ﷺ کے اس قول کا کیا مطلب ہے’’مجھے سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ میرا بندہ جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اس کے ذریعے میرے قریب ہو، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘؟ ما هي العبادة؟ وما معنى قول النبي في الحديث القدسي ويده التي يبطش بها ما مقدار المدة بين نفخة الصعق ونفخة البعث لجميع الخلائق؟

المشاهدات:2841
- Aa +

تمام مخلوقات کیلئے سور پھونکے جانے کے اعتبار سے نفخہ صعق (بے ہوش کرنے والے نفخہ) اور نفخہ بعث (دوبارہ زندہ کئے جانے والے نفخہ) کے درمیان کتنا زمانی فاصلہ ہو گا؟عبادت کیا ہے؟ اور حدیث قدسی میں نبی ﷺ کے اس قول کا کیا مطلب ہے’’مجھے سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ میرا بندہ جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اس کے ذریعے میرے قریب ہو، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘؟

ما هي العبادة؟ وما معنى قول النبي في الحديث القدسي ويده التي يبطش بها ما مقدار المدَّة بين نفخة الصَّعق ونفخة البعث لجميع الخلائق؟

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

عبادت ایک جامع اسم ہے جس میں اقوال ، ظاہری افعال اور باطنی افعال جو اللہ تعالی کو پسند ہیں اور جن سے اللہ راضی ہوتا ہے سب شامل ہیں، لہذا نماز، روزہ، زکاۃ، حج اورذکر جیسے تسبیح، استغفار اور تلاوت قرآن یہ سب عبادات ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اللہ سے امید ، اس پر توکل ، اس کی طرف رجوع ، اس سے محبت اور خوف دعاء اس سے مدد طلب کرنا یہ سب قلبی عبادات (دل کی عبادت) ہیں اس سے بھی اللہ کہ عبادت ہی کہ جاتی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں نفع مند بندہ ہی ہوتا ہے کیونکہ عبادت کے ذریعے دنیا اور آخرت کی خوشبختی حاصل کی جاتی ہے، جہاں تک اللہ تعالی کی ذات کا تعلق ہے تو وہ بالکل غنی اور بے نیاز ہے اسے ہماری عبادت کی ضرورت نہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اور قابل تعریف ذات ہے)) [فاطر:۱۵] ، حدیث قدسی میں نبینے فرمایا: ((اللہ تعالی کہتے ہیں:اے میرے بندو! تم ہرگز مجھے نقصان پہنچانے کے در پے آکر مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور تم مجھے ہر گز نفع پہنچانے کے در پر آکر مجھے فائدہ نہیں دے سکتے، اے میرے بندو! اگر تم میں سے سب سے پہلے سے لے کر آخری تک، جن ہوں یا انسان یہ سب تم میں سے سب سے زیادہ تقوی والے  بندے کے دل کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں ہوتی، اور اگر تم میں سے سب سے پہلے سے لے کر آخری شخص تک، جن بھی انسان بھی تم میں سے سب سے زیادہ نافرمان بندے کے دل کی طرح ہو جائیں اس سے میرے ملک میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آتی)) رواہ مسلم، لیکن یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں کو نفع پہنچانے اور ان سے ضرر کو دور کرنے کی کمال محبت اور اعلی درجے کا احسان و اکرام ہے کہ اس نے اپنے بندوں میں اس بات کو پسند کیا کہ وہ اس کی عبادت کریں اس کی معرفت حاصل کریں اس کی اطاعت کریں اور اسی سے ڈریں،لہذا ہمیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا ہمیں عبادت کا حکم دینا یہ ہماری ہی اصلاح اور ہماری ہی خوش بختی کیلئے ہے، تمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں۔

اور جہاں تک حدیث کا تعلق ہے جس کا آپ نے مطلب پوچھا ہے تو یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے اور اس کا معنی بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ: اللہ تعالی اپنے بندوں کو بتا رہے ہیں کہ سب سے پسندیدہ عمل جس کے ذریعے اللہ کے قریب ہوا جا سکتا ہے وہ ہے جو اس نے ہم پر فرض کر دیا ہے، پھر یہ کہ اللہ کی رضامندی کا طلبگار اللہ کے قریب نوافل کے ذریعے ہوتا چلا جاتا ہے، نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض نہیں ہیں، یہاں تک کہ اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اس عظیم مرتبے پر پہنچ جاتا ہے یعنی اسے اللہ کی محبت نصیب ہو جاتی ہے اور اللہ کی طرف سے اسے توفیق ملنے لگتی ہے اور اللہ رب العزت کی راہنمائی اسے اپنے احاطے میں لے لیتی ہے، اس وقت میں اس کا سننا، اس کا دیکھنا، اس کا چلنا اس کا پکڑنا نیز اس کی تمام حرکات اللہ کیلئے ہو جاتی ہیں پورے اخلاص کے ساتھ اور اتباع کی نیت سے اور وہ اللہ ہی سے اعانت طلب کرتا ہے: ((ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں)) [الفاتحہ:۵]، اب اگر یہ اللہ سے سؤال کرتا ہے اللہ جواب دیتے ہیں، پناہ مانگتا ہے اللہ پناہ دیتے ہیں اور یہ محض اللہ کا فضل ہے اور وہ جس کو چاہے اپنا فضل عطا کرے، تو اس حدیث کے اس حصے کا مطلب: ((میں اس کا کان بن جاتا یوں، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں))  یہ ہے کہ میں اس کی آنکھ کان کو سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہوں،لہذا وہ وہی دیکھتا ہے جو اللہ کو راضی کرے، وہی سنتا ہے جو اس کی رضا کا سبب ہو، اور چلتا اور پکڑتا بھی اللہ کی رضا کیلئے ہی ہے، پس اس کا ہر عمل اللہ کیلئے ہوتا ہے پورے اخلاص اور طلب کے ساتھ، حکم کو بجا لاتا ہے اور ممنوع چیز کو ترک کر دیتا ہے


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127301 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62442 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58479 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55639 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55144 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51717 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49852 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44090 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف