×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / تعزیت کرنے کی مدت

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

عام طور پر عادت یہ ہے کہ تعزیت تین دن سے زیادہ ہوتی ہے، ایک تو ایک ہفتے کا کہا جاتا ہے جو کہ یہود کے ہاں ہے اور ایک چالیس دن کا جو کہ عیسائیوں کے ہاں ہے اور شیعہ کے ہاں ہر سال چالیس دن ہیں، تو کیا اس بارے میں کوئی حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہو کہ تعزیت تین دن تک ہے بس؟ مدة التعزية

المشاهدات:3685

عام طور پر عادت یہ ہے کہ تعزیت تین دن سے زیادہ ہوتی ہے، ایک تو ایک ہفتے کا کہا جاتا ہے جو کہ یہود کے ہاں ہے اور ایک چالیس دن کا جو کہ عیسائیوں کے ہاں ہے اور شیعہ کے ہاں ہر سال چالیس دن ہیں، تو کیا اس بارے میں کوئی حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہو کہ تعزیت تین دن تک ہے بس؟

مدة التعزية

الجواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہیں۔

احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے اکثر فقہاء کا کہنا یہی ہے کہ تعزیت صرف تین دن تک کیلئے ہے اور انہوں نے اس کی علت یہ ذکر کی ہے کہ تعزیت سے مقصود پریشان دل کو حوصلہ اور تسلی دینا ہے اور غالب یہ ہے کہ یہ مقصود اتنی مدت میں حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد تعزیت کرنے میں ایک بار تسلی مل جانے کے بعد دوبارہ اس کے غم کو لوٹانے کی سی صورت ہوتی ہے، فقہائے حنابلہ نے اس پر اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو کہ بخاری (۱۲۸۲) اور مسلم (۱۴۸۶) میں ام حبیبہ ؓ کی روایت مذکور ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ((عورت جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کیلئے حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے اس کے شوہر کے کہ اس کیلئے چار مہینے دس دن سوگ منائی گی)) تو ان حضرات نے کہا کہ ان تین دنوں میں سوگ منانے کی اجازت اس بات پر دال ہے کہ تعزیت کا وقت یہی تین دن ہیں۔

اور جہاں تک اس کی بات ہے جو آپ نے ایک ہفتہ، چالیس دن یا شیعوں کے ہر سال چالیس دن کا ذکر کیا تو یہ سب ان بری بدعات میں سے ہے جو کہ شریعت کو جاننے والا اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ یہ بدعات حرام ہیں اور اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور یہ اس جاہلیت کے سوگ میں سے ہیں جو کہ یہود و نصاری سے لیا گیا تھا، پس اس طرح کی کوئی چیز نہ خود کرنے کے اعتبار سے جائز ہے اور نہ ہی اس میں شرکت جائز ہے


المادة السابقة
المادة التالية

الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127749 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62724 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59397 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55722 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55189 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52105 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50053 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45065 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف