×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / مالِ زکوٰۃ میں سے میت کے قرضے کی ادائیگی کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

ایک عورت جس کا باپ وفات پاگیا ہے اوراس پر کافی قرضہ تھا ، اور اب وہ عورت اپنے مال کا زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہے ، تو کیا اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس زکوٰۃ میں سے اپنے باپ کا قرضہ پورا کرے؟ قضاء دين الميت من الزكاة

المشاهدات:2096

ایک عورت جس کا باپ وفات پاگیا ہے اوراس پر کافی قرضہ تھا ، اور اب وہ عورت اپنے مال کا زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہے ، تو کیا اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس زکوٰۃ میں سے اپنے باپ کا قرضہ پورا کرے؟

قضاء دَيْن الميت من الزكاة

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

جمہور علماء ، احناف ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک مالِ زکوٰۃ میں سے میت کا قرضہ اد ا کرنا جائز نہیں ہے ، اور ان کی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کوقرضداروں کی طرف منسوب کیا ہے ، اور یہ اس میت کی طرف سے قرضہ کی ادائیگی میں موافق نہیں ہے ، اس لئے کہ یہاں قرضدار کی طرف سے خود اس کی ملکیت نہیں پائی جارہی۔

مالکیہ فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مال میں سے میت کا قرضہ ادا کیا جا سکتا ہے اور انہوں نے آیت کے عموم سے استدلال کیا ہے اور زندہ آدمی کی طرف سے قرضہ کی ادائیگی پر قیاس کیا ہے (کہ جس طرح زندہ آدمی کی طرف سے قرضہ ادا کیا جاسکتا ہے اسی طرح میت کی طرف سے بھی) اس میں شوافع اور حنابلہ بھی ان کے ساتھ ہیں اور اسی قول کو شیخ الاسلام امام ابن تیمییہ ؒ نے اختیار کیا ہے۔

اور مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ زکوٰۃ میں سے میت کا قرضہ ادا کیا جاسکتا ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ان کے بارے میں فرض کی ہے نہ کہ ان کے لئے ، جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿بے شک زکوٰۃ فقراء ، مساکین ، زکوٰۃ پر کام کرنے والوں ، نئے اسلام لانے والوں کی دلجوئی ، غلاموں ، قرضداروں ، اللہ کے راستے میں چلنے والے مجاہدین اور راہگیر مسافروں کے لئے ہے ، یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بہت علم والا بہت حکمت والا ہے﴾ {التوبۃ: ۶۰

شیخ الاسلام اما م ابن تیمیہ ؒ نے مجموع الفتاوی {۲۵/۸۰} میں اس آیت کی تعلیل کرتے ہوئے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (والغارمین ولم یقل للغارمین) یعنی یہ نہیں کہا کہ قرضدار کے لئے بلکہ یوں کہا کہ قرضدار، اس لئے کہ قرضدار اس کا مالک نہیں ہوتا اسی پر قیاس کرتے ہوئے میت کے ورثاء اور باقی لوگوں کے لئے میت کی طرف سے قرضہ کی ادائیگی جائز ہے ۔

اور اگر وہ میت زکوٰۃ دینے والے کا کوئی رشتہ دار ہو تو یہ اس وقت اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے ۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

30/12/1424هـ


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127535 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62636 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59108 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55697 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55174 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52004 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50009 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45001 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف