×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / تھکاوٹ اور کشیدگی کے باعث قصداََ اسقاط حمل کرانا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

میری والدۂ محترمہ اس وقت ایک عمررسیدہ خاتون ہیں، اور اللہ کے فضل سے بڑے اچھے طریقے سے دین کے سارے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، لیکن انہوں نے آج سے پچیس سال قبل ایک کام کیا جس کے بارے میں وہ آپ کی رائے جاننا چاہتی ہیں، بات یہ ہے کہ اس وقت میری والدہ زمینداری کا کام کرتی تھی، اور اس نے کئی بیٹوں اور بیٹیوں کو جنم دیا اور ہر بچے کے درمیان نو ماہ یا سال کا وقفہ ہے، اور چونکہ ان دنوں دور حاضر کی طرح منع حمل کے لئے کوئی ٹیبلٹس نہیں پائی جاتی تھی تو دس بیٹوں اور بیٹیوں کو جننے کے بعد جب اسے خوب تھکاوٹ اور مشقت کا احساس ہوا تو جب بھی حمل تین ماہ کا ہوتا تو وہ حمل کو ضائع کردیتی تھی اور یہ کام انہوں ایک سے زائد بار کیا ، اس طرح کرنے سے حمل تو ساقط ہوجاتا تھا لیکن اس سخت مشقت کے باوجود بعد میں اسے خوب ندامت ہوئی ، اب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اس عرصہ میں جب حمل کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی تو کیا اس صورت میں میری والدہ پر کفارہ آئے گا؟ اور اس جنین کو قتل کرنا ایک آدمی کے قتل کی طرح تصور کیا جائے گا؟ ازراہ کرم اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ أجهضت عمدا بسبب التعب والإجهاد

المشاهدات:1233
- Aa +

میری والدۂ محترمہ اس وقت ایک عمررسیدہ خاتون ہیں، اور اللہ کے فضل سے بڑے اچھے طریقے سے دین کے سارے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، لیکن انہوں نے آج سے پچیس سال قبل ایک کام کیا جس کے بارے میں وہ آپ کی رائے جاننا چاہتی ہیں، بات یہ ہے کہ اس وقت میری والدہ زمینداری کا کام کرتی تھی، اور اس نے کئی بیٹوں اور بیٹیوں کو جنم دیا اور ہر بچے کے درمیان نو ماہ یا سال کا وقفہ ہے، اور چونکہ ان دنوں دورِ حاضر کی طرح منعِ حمل کے لئے کوئی ٹیبلٹس نہیں پائی جاتی تھی تو دس بیٹوں اور بیٹیوں کو جننے کے بعد جب اسے خوب تھکاوٹ اور مشقت کا احساس ہوا تو جب بھی حمل تین ماہ کا ہوتا تو وہ حمل کو ضائع کردیتی تھی اور یہ کام انہوں ایک سے زائد بار کیا ، اس طرح کرنے سے حمل تو ساقط ہوجاتا تھا لیکن اس سخت مشقت کے باوجود بعد میں اسے خوب ندامت ہوئی ، اب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اس عرصہ میں جب حمل کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی تو کیا اس صورت میں میری والدہ پر کفارہ آئے گا؟ اور اس جنین کو قتل کرنا ایک آدمی کے قتل کی طرح تصور کیا جائے گا؟ ازراہِ کرم اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

أجهضت عمداً بسبب التعب والإجهاد

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

آ پ کی والدہ کو درج ذیل امور پر عمل کرنا چاہئے:-

۱۔ سب سے پہلے تو وہ اللہ کے حضور توبہ کریں۔

۲۔ دوسرا یہ کہ جنین کے ورثاء کو پانچ اونٹ دئے جائیں ، اگر اس قتل کے وقت اس کا باپ موجود تھا تو وہ اونٹ اکیلے باپ کے ہوجائیں گے اور اگر وہ اپنے حق سے دستبردار ہوجائے تو پھر حق اسی کا ہوجائے گا اور بعض اہل علم کے نزدیک ایسی عورت پر کفارہ واجب ہے۔

۳۔ تیسرا یہ کہ اس پر کوئی کفارہ نہیں یہی قول درست ہے ، اس لئے کہ اس جنین میں ابھی تک روح نہیں پھونکی گئی اور وہ عام آدمی کے قتل کی طرح نہیں ہے


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127306 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62447 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58486 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55639 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55144 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51725 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49857 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44095 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف