×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / کیا یہ ضرورت سود لینے کو مباح کرتی ہے؟

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

ایک مرتبہ مجھے بہت زیاہ مالی تنگی درپیش آئی ، اور میری والدہ نے مجھے کچھ رقم بطور قرض دی تھی اور اس کے بعد انہوں نے مجھ پر اس کے واپس لوٹانے پر بڑی تشدید اور سختی کی ، اور مجھے یکسر یہ علم نہیں تھا کہ اس قسم کی ضرورت ممنوعہ کام یعنی بینک سے قرضہ لینے کی اجازت دیتی ہے جبکہ بینک والے تو سود بھی لیتے ہیں، بہر کیف میں نے دو رکعت صلاۃ استخارہ پڑھی اور بسم اللہ کرکے بینک سے قرضہ لے لیا ، اب اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے،اورکیا ضرورت کے لئے حرام کے کام میں استخارہ کرنا جائز ہے؟ هل هذه ضرورة تبيح الربا؟

المشاهدات:1661

ایک مرتبہ مجھے بہت زیاہ مالی تنگی درپیش آئی ، اور میری والدہ نے مجھے کچھ رقم بطور قرض دی تھی اور اس کے بعد انہوں نے مجھ پر اس کے واپس لوٹانے پر بڑی تشدید اور سختی کی ، اور مجھے یکسر یہ علم نہیں تھا کہ اس قسم کی ضرورت ممنوعہ کام یعنی بینک سے قرضہ لینے کی اجازت دیتی ہے جبکہ بینک والے تو سود بھی لیتے ہیں، بہر کیف میں نے دو رکعت صلاۃ ِ استخارہ پڑھی اور بسم اللہ کرکے بینک سے قرضہ لے لیا ، اب اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے،اورکیا ضرورت کے لئے حرام کے کام میں استخارہ کرنا جائز ہے؟

هل هذه ضرورة تبيح الربا؟

الجواب

حمد وثناء کے بعد۔۔۔

اس ضرورت کو ان ضرورتوں میں سے شمار نہیں کیا جاتا جو سود کو مباح کرے اس لئے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اگر وہ تنگدست ہو تو فراخی تک اسے مہلت دو﴾ [البقرۃ: 280] اسی رُو سے آپ کے لئے حرام طریقہ سے اس مال کی واپسی واجب نہیں ہے، بلکہ قرض خواہ کو چاہئے کہ وہ اچھے وقت تک کے لئے صبر اختیار کرے ، اب یہاں یہ بات علم میں رکھیں کہ اہل علم کا کہنا ہے کہ ضرورت سود کو مباح نہیں کرتی۔

اور درست یہی ہے کہ میرے خیال میں یہ باقی محرمات میں سے نہیں ہے لیکن یہ ضرور علم میں رہنا چاہئے کہ ضرورت صرف دو شرطوں کے ساتھ سود کو مباح کرتی ہے:

پہلی شرط:  ضرر دفع کرنے لئے حرام کا ارتکاب متعین کیا جائے ۔

دوسری شرط:  ضرورت کے ذریعہ حرام کردہ کام ختم ہونے کا یقین ہو ۔

باقی رہا استخارہ کا سوال تو استخارہ اس کام میں نہیں کیا جاتا جو واجب ہو اور نہ ہی حرام اور مکروہ کام چھوڑنے کے لئے کیا جاتا ہے بلکہ استخارہ تو دو خیروں کو  طلب کرنے کا نام ہے ، حرام کام سے اجتناب اور گریز واجب ہے کہ اس میں کوئی خیر نہیں ، یا خیر ہو تو لیکن اس کا دارومدار برائی پر ہو ۔

لیکن اگر استخارہ سے مراد حرام کام میں اسکی اباحت کے اسباب پایا جانا ہو یا دونوں حرام کاموں میں موازنہ مراد ہو تو پھر ان جیسے کاموں میں استخارہ مشروع ہے۔ واللہ أعلم


المادة السابقة

الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127560 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62660 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59181 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55706 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55177 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52026 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50016 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45021 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف