×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / صاحبِ اختیار حکمرانوں کے حقوق اور ان کی فرمانبرداری کا واجب ہونا

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

خطبۂ اول: تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى الله عليه وسلم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ امابعد۔۔۔         اللہ کے بندو میں تمہیں پوشیدہ اور سب کے سامنے اللہ  عزوجل سے تقویٰ اختیار کرنے اور ظاہری اور باطنی طور پر سنت کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ تم ان کاموں سے بچو جو دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کئے ہیں، کیونکہ دین میں ایجاد کی ہوئی ہر نئی بات بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے کر جانے والی ہے۔ اے مؤمنو!         مسلمانوں کے کاموں کا نگران بننا دین کے فرائض میں سے بہت اہم کام ہے جس کی وجہ سے دنیا اور دین کی مصلحتیں حاصل ہوتی ہیں۔ بنو آدم کے رنگ اور ان کی زبان کے اختلاف کے باوجود ان کا فائدہ اجتماعی طور پر کام کرنے کی صورت میں ہی ہے، کیونکہ ان میں سے بعض کو بعض کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے اس اجتماع میں کسی کا سرپرست اور منتظم ہونا بھی ضروری ہےجس کے ذریعہ  لوگوں کے  لئے تدبیر وانصرام کیاجائے ،امن کو محفوظ بنایا جائے، حقوق کی پاسداری کی جائے،  زندگی  کی حفاظت کی جائے اور عہد و پیمان کو پورا کیا جائے۔ اے مؤمنو! جب اس حیثیت سے معاملات کا نگران بننا  بہت بڑا معاملہ ہے اور لوگوں کی اس بارے میں ضرورت بھی بہت زیادہ ہے تو اس لئے نبی کریم  صلى الله عليه وسلم نے ایمان والوں پر لازم کیا ہے کہ اگر وہ سفر میں تین افراد بھی ہوں تو اپنے میں سے کسی کو امیر بنالیں، کیونکہ یہ مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کوان کی مرضی پر چھوڑ دیاجائے اور ان کا کوئی سرپرست اور امیر نہ ہو۔ بلکہ اگر لوگوں کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے گا تو انہیں حق پر کوئی بھی جمع کرنے والا جمع نہیں کرسکے گا، انہیں باطل سے کوئی بھی  منع نہیں کرسکے گااور انہیں سرکشی سے کوئی بھی نہیں ڈرا سکے گا ۔ اس صورت میں ممالک خراب ہوجائیں گے، مجلسوں کا شیرازہ بکھر جائے گا، جماعتیں بے کار ہوجائیں گی، لوگوں کے جھگڑوں کا حل کمزور پڑجائے گا، فتنےعام ہوجائیں گے اور مصیبتیں پھیل جائیں گی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کاشکر ہے جس نے لوگوں کے معاملات کا انتظام دین کے ضروری کاموں میں سے بہت بڑا کام قرار دیا ہے۔ اے مؤمنو!         اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے معاملات کے منتظمین کے  لئے ضروری اور واجب حقوق رکھے ہیں جن کی وجہ سے مخلوق کے دین کی کامیابی  اور ان کی زندگی کی درستگی ہوسکتی ہے۔         اللہ کے بندو معاملات کے منتظمین کا سب سے تاکیدی حق ان کی بھلائی کےکاموں میں تابعداری اور فرمانبرداری ہے۔ ان کی فرمانبرداری وہ عظیم بنیاد ہے جس کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے محکم کتاب میں حکم دیا ہے: ((اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں، ان کی بھی ۔))         اس امت کی عزت اور اہمیت کی وجہ سے رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے اپنے صحابہ سے اس بات پر بیعت لی۔ صحیحین کی حدیث حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے بلایا تو ہم نے آپ  صلى الله عليه وسلم سے بیعت کی، وہ بیعت ہماری خوشی اور مجبوری، تنگی اور فراخی اور ہم پر غلبہ کے باوجود اطاعت اور فرمانبرداری پر تھی ‘‘۔         صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ :’’نبی کریم  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اگرچہ تم پر ناک کان کٹا ہوا غلام امیر مقرر کردیا جائے جو تمہاری اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی کتاب کے مطابق رہنمائی کرتا ہو تو بھی اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔‘‘ اے مؤمنو!         اللہ کے بندو، معاملات میں حاکموں کی فرمانبرداری ہر اس کام میں واجب ہے جس میں وہ نیکی کا حکم دیتے ہو، لیکن اگر وہ گناہ کا حکم دیں تو وہ خالق جو اکیلا ہے اوراس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے اس کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی فرمانبرداری نہیں ہے۔ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان چیزوں میں جن کو وہ پسند کرتا ہے یا ناپسند کرتا ہے تابعداری اور فرمانبرداری کو لازم پکڑے سوائے اس صورت کے جب  اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے۔  اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو کوئی تابعداری اور فرمانبرداری نہیں ہے۔ ‘‘ اے ایمان والو!          امراء کی فرمانبرداری ان کاموں میں لازم ہے جو وہ رعایا کو فوائد پہنچانے، ان کے کاموں کا ریکارڈ رکھنے اوران کے  امن کومحفوظ بنانے کےلئے جن میں شریعت مطہرہ کی کوئی مخالفت نہیں ہوتی،   ترتیب دیتے ہیں۔ یہ انتظام کرنا  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اس ارشاد کے عموم میں داخل ہے   : ((اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں، ان کی بھی ۔))  اوراس آیت کے علاوہ بھی دیگر نصوص میں  داخل  ہے  جو معاملات کے امراء کی فرمانبرداری کا حکم  دیتی ہیں۔ اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور امراء  لوگوں کے معاملات کے نظم وضبط کےلئے جو کوشش کرتے ہیں ان  کاموں میں ان کی فرمانبرداری کرو، اور اس پر ثواب کی صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی سے امید رکھو، کیونکہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھے گا۔ ایمان والو!         معاملات کے امراء کی فرمانبرداری کے لازم ہونے کا تعلق صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے جب کہ وہ رعایا کے ان تمام حقوق وفرائض کو ادا کریں جو ان پر لازم ہے،  بلکہ اگر وہ اپنے لازمی حقوق کی ادائیگی میں کمی کریں تو بھی ان کی فرمانبرداری لازم ہے۔ لہٰذا ہر مؤمن پر لازم ہے کہ وہ  ہر   حالت میں امراء کے ان حقوق وفرائض کو ضرور ادا کرے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اس پر فرض کئے ہیں جب تک کہ وہ نافرمانی کاحکم نہ دیں۔ صحیحین کی حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ’’تم میرے بعد ایسی چیزیں اور کام دیکھو گے جو تم ناپسند کرتے ہوگے۔ صحابہ نے عرض کیا: آپ ہمیں ان حالات میں کیا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ: تم لوگوں کو ان کا حق دو اور اپنے حق کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے سوال کرو۔‘‘         صحیح مسلم کی  حدیث حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے امیر کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو اگرچہ وہ تمہاری پشت پر مارے اور تمہارا مال چھین لے۔‘‘  یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ معاملات کے امراء کی فرمانبرداری میں دنیا کی سعادت اور بندوں کی زندگی میں ان کی مصلحتوں کی درستگی ہے۔ اے مؤمنو!         رعایا پر معاملات کے امراء کے حقوق میں سے یہ بات بھی ہے کہ ان کےلئے خیرخواہی لازم ہے، کیونکہ دین اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ، اس کے رسول، مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لئے  خیر خواہی کا ہی نام ہے۔         اللہ کے بندو معاملات کے امراء سے خیرخواہی ان کی درستگی، ان کی ہدایت ،ان کی عدالت  اور امت کے ان پر اتفاق اور امت کی ان پر نااتفاقی کی ناپسندیدگی سے محبت کے ذریعہ ہوگی۔ اے مؤمنومعاملات کے امراء سے خیر خواہی ان کی حق اور ہدایت کے کاموں میں مدد، بغیر کسی سختی، مشہوری اور برا بھلا کہنے کے نرمی اور سہولت سے نیکی اور تقویٰ کی یاددہانی  پر تنبیہ کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے،  کیونکہ نرمی جس چیز میں ہوتی ہے وہ اسے مزین کردیتی ہے اور اگر نرمی کسی چیز سے نکال لی جائے تو اسے عیب دار بنادیتی ہے۔ امراء کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کیونکہ لوگ جماعت میں کسی چیز کو ناپسند کریں وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ افتراق میں اس چیز کو پسند کریں۔ اے اللہ مؤمنین کے دلوں کو آپس  میں ملادیجئے اور ان کے درمیان اصلاح فرمادیجئے۔ دوسرا خطبہ: أما بعد۔۔۔         لوگوں کے معاملات چاہے وہ امراء کے ہوں یا رعایا  کے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ کے بغیر ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ اگر امراء ان چیزوں میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ اختیار کریں جو  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان پر ملت کی حفاظت اور امت کے لئے بہترین سیاسیت کے سلسلے میں فرض کی ہیں،  اور رعایا ان چیزوں میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ اختیار کریں جو اللہ  سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان پر اپنی ذات، امراء اور ایک دوسرے کے حقوق کے سلسلے میں فرض کی ہیں تو بہت زیادہ بھلائیاں حاصل ہوں گی اور امت سے بہت بڑا شر ختم ہوجائے گا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (( اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ))۔ اے مؤمنو!  تم سب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔ تم سب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کےپاس پہنچنے والےہو ،اپنے اعمال کا حساب کتاب دینے والے ہو اور انہی کے مطابق تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔

المشاهدات:2421
- Aa +

خطبۂ اول:

تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى الله عليه وسلم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

امابعد۔۔۔

        اللہ کے بندو میں تمہیں پوشیدہ اور سب کے سامنے اللہ  عزوجل سے تقویٰ اختیار کرنے اور ظاہری اور باطنی طور پر سنّت کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ تم ان کاموں سے بچو جو دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کئے ہیں، کیونکہ دین میں ایجاد کی ہوئی ہر نئی بات بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنّم میں لے کر جانے والی ہے۔

اے مؤمنو!

        مسلمانوں کے کاموں کا نگران بننا دین کے فرائض میں سے بہت اہم کام ہے جس کی وجہ سے دنیا اور دین کی مصلحتیں حاصل ہوتی ہیں۔ بنو آدم کے رنگ اور ان کی زبان کے اختلاف کے باوجود ان کا فائدہ اجتماعی طور پر کام کرنے کی صورت میں ہی ہے، کیونکہ ان میں سے بعض کو بعض کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے اس اجتماع میں کسی کا سرپرست اور منتظم ہونا بھی ضروری ہےجس کے ذریعہ  لوگوں کے  لئے تدبیر وانصرام کیاجائے ،امن کو محفوظ بنایا جائے، حقوق کی پاسداری کی جائے،  زندگی  کی حفاظت کی جائے اور عہد و پیمان کو پورا کیا جائے۔ اے مؤمنو! جب اس حیثیت سے معاملات کا نگران بننا  بہت بڑا معاملہ ہے اور لوگوں کی اس بارے میں ضرورت بھی بہت زیادہ ہے تو اس لئے نبی کریم  صلى الله عليه وسلم نے ایمان والوں پر لازم کیا ہے کہ اگر وہ سفر میں تین افراد بھی ہوں تو اپنے میں سے کسی کو امیر بنالیں، کیونکہ یہ مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کوان کی مرضی پر چھوڑ دیاجائے اور ان کا کوئی سرپرست اور امیر نہ ہو۔ بلکہ اگر لوگوں کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے گا تو انہیں حق پر کوئی بھی جمع کرنے والا جمع نہیں کرسکے گا، انہیں باطل سے کوئی بھی  منع نہیں کرسکے گااور انہیں سرکشی سے کوئی بھی نہیں ڈرا سکے گا ۔ اس صورت میں ممالک خراب ہوجائیں گے، مجلسوں کا شیرازہ بکھر جائے گا، جماعتیں بے کار ہوجائیں گی، لوگوں کے جھگڑوں کا حل کمزور پڑجائے گا، فتنےعام ہوجائیں گے اور مصیبتیں پھیل جائیں گی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کاشکر ہے جس نے لوگوں کے معاملات کا انتظام دین کے ضروری کاموں میں سے بہت بڑا کام قرار دیا ہے۔

اے مؤمنو!

        اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے معاملات کے منتظمین کے  لئے ضروری اور واجب حقوق رکھے ہیں جن کی وجہ سے مخلوق کے دین کی کامیابی  اور ان کی زندگی کی درستگی ہوسکتی ہے۔

        اللہ کے بندو معاملات کے منتظمین کا سب سے تاکیدی حق ان کی بھلائی کےکاموں میں تابعداری اور فرمانبرداری ہے۔ ان کی فرمانبرداری وہ عظیم بنیاد ہے جس کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے محکم کتاب میں حکم دیا ہے: ((اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ اختیار ہوں، اُن کی بھی ۔))

        اس اُمّت کی عزّت اور اہمیت کی وجہ سے رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے اپنے صحابہ سے اس بات پر بیعت لی۔ صحیحین کی حدیث حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے بلایا تو ہم نے آپ  صلى الله عليه وسلم سے بیعت کی، وہ بیعت ہماری خوشی اور مجبوری، تنگی اور فراخی اور ہم پر غلبہ کے باوجود اطاعت اور فرمانبرداری پر تھی ‘‘۔

        صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ :’’نبی کریم  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اگرچہ تم پر ناک کان کٹا ہوا غلام امیر مقرر کردیا جائے جو تمہاری اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی کتاب کے مطابق رہنمائی کرتا ہو تو بھی اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔‘‘

اے مؤمنو!

        اللہ کے بندو، معاملات میں حاکموں کی فرمانبرداری ہر اس کام میں واجب ہے جس میں وہ نیکی کا حکم دیتے ہو، لیکن اگر وہ گناہ کا حکم دیں تو وہ خالق جو اکیلا ہے اوراس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے اس کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی فرمانبرداری نہیں ہے۔ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان چیزوں میں جن کو وہ پسند کرتا ہے یا ناپسند کرتا ہے تابعداری اور فرمانبرداری کو لازم پکڑے سوائے اس صورت کے جب  اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے۔  اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو کوئی تابعداری اور فرمانبرداری نہیں ہے۔ ‘‘

اے ایمان والو!

         امراء کی فرمانبرداری ان کاموں میں لازم ہے جو وہ رعایا کو فوائد پہنچانے، ان کے کاموں کا ریکارڈ رکھنے اوران کے  امن کومحفوظ بنانے کےلئے جن میں شریعتِ مطہّرہ کی کوئی مخالفت نہیں ہوتی،   ترتیب دیتے ہیں۔ یہ انتظام کرنا  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اس ارشاد کے عموم میں داخل ہے   : ((اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحبِ اختیار ہوں، اُن کی بھی ۔))  اوراس آیت کے علاوہ بھی دیگر نصوص میں  داخل  ہے  جو معاملات کے امراء کی فرمانبرداری کا حکم  دیتی ہیں۔ اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور امراء  لوگوں کے معاملات کے نظم وضبط کےلئے جو کوشش کرتے ہیں ان  کاموں میں ان کی فرمانبرداری کرو، اور اس پر ثواب کی صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی سے اُمّید رکھو، کیونکہ جس نے ذرّہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی، وہ اُسے دیکھے گا، اور جس نے ذرّہ برابر کوئی بُرائی کی ہوگی، وہ اُسے دیکھے گا۔

ایمان والو!

        معاملات کے امراء کی فرمانبرداری کے لازم ہونے کا تعلّق صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے جب کہ وہ رعایا کے ان تمام حقوق وفرائض کو ادا کریں جو ان پر لازم ہے،  بلکہ اگر وہ اپنے لازمی حقوق کی ادائیگی میں کمی کریں تو بھی ان کی فرمانبرداری لازم ہے۔ لہٰذا ہر مؤمن پر لازم ہے کہ وہ  ہر   حالت میں امراء کے ان حقوق وفرائض کو ضرور ادا کرے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اس پر فرض کئے ہیں جب تک کہ وہ نافرمانی کاحکم نہ دیں۔ صحیحین کی حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ’’تم میرے بعد ایسی چیزیں اور کام دیکھو گے جو تم ناپسند کرتے ہوگے۔ صحابہ نے عرض کیا: آپ ہمیں ان حالات میں کیا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ: تم لوگوں کو ان کا حق دو اور اپنے حق کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے سوال کرو۔‘‘

        صحیح مسلم کی  حدیث حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے امیر کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو اگرچہ وہ تمہاری پشت پر مارے اور تمہارا مال چھین لے۔‘‘  یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ معاملات کے امراء کی فرمانبرداری میں دنیا کی سعادت اور بندوں کی زندگی میں ان کی مصلحتوں کی درستگی ہے۔

اے مؤمنو!

        رعایا پر معاملات کے امراء کے حقوق میں سے یہ بات بھی ہے کہ ان کےلئے خیرخواہی لازم ہے، کیونکہ دین اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ، اس کے رسول، مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لئے  خیر خواہی کا ہی نام ہے۔

        اللہ کے بندو معاملات کے امراء سے خیرخواہی ان کی درستگی، ان کی ہدایت ،ان کی عدالت  اور اُمت کے ان پر اتفاق اور اُمّت کی ان پر نااتفاقی کی ناپسندیدگی سے محبّت کے ذریعہ ہوگی۔ اے مؤمنومعاملات کے امراء سے خیر خواہی ان کی حق اور ہدایت کے کاموں میں مدد، بغیر کسی سختی، مشہوری اور برا بھلا کہنے کے نرمی اور سہولت سے نیکی اور تقویٰ کی یاددہانی  پر تنبیہ کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے،  کیونکہ نرمی جس چیز میں ہوتی ہے وہ اسے مزیّن کردیتی ہے اور اگر نرمی کسی چیز سے نکال لی جائے تو اسے عیب دار بنادیتی ہے۔ امراء کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کیونکہ لوگ جماعت میں کسی چیز کو ناپسند کریں وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ افتراق میں اس چیز کو پسند کریں۔ اے اللہ مؤمنین کے دلوں کو آپس  میں ملادیجئے اور ان کے درمیان اصلاح فرمادیجئے۔

دوسرا خطبہ:

أما بعد۔۔۔

        لوگوں کے معاملات چاہے وہ امراء کے ہوں یا رعایا  کے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ کے بغیر ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ اگر امراء ان چیزوں میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ اختیار کریں جو  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان پر ملّت کی حفاظت اور اُمّت کے لئے بہترین سیاسیت کے سلسلے میں فرض کی ہیں،  اور رعایا ان چیزوں میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ اختیار کریں جو اللہ  سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان پر اپنی ذات، امراء اور ایک دوسرے کے حقوق کے سلسلے میں فرض کی ہیں تو بہت زیادہ بھلائیاں حاصل ہوں گی اور اُمّت سے بہت بڑا شر ختم ہوجائے گا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (( اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ))۔

اے مؤمنو!  تم سب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔ تم سب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کےپاس پہنچنے والےہو ،اپنے اعمال کا حساب کتاب دینے والے ہو اور انہی کے مطابق تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83157 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78221 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72541 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60683 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55031 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52239 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49435 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات47972 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44828 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44134 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف