×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / حاسد کو پیغام

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

خطبۂ اول: تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ امابعد!         اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اپنے دل کو بیماریوں، مصیبتوں، برائیوں اور گناہوں سے پاک کرو، کیونکہ دل دیگر اعضاء کا سردار ہے اور وہ اس کے تابع ہیں۔ دل انہیں جیسے چاہتاہے استعمال کرتا ہے اور جیسے چاہتا ہے ان سے خدمت لیتا ہے۔ دیگر اعضاء دل کے کام اور اس کی دھڑکن میں ذرائع کا کام کرتےہیں۔ دل سے ہی دیگر اعضاء درست یا خراب ہوتے ہیں۔ اس بات کی گواہی اور اس کی طرف رہنمائی  وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرات شیخین نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آگاہ رہو جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔‘‘         دل سب سے زیادہ باعزت عضو، سب سے زیادہ عظیم حصہ، اثر کرنےکے اعتبار سے سب سے زیادہ، حالت کے اعتبار سے سب سے زیادہ  پیچیدہ اور اصلاح کے اعتبار سے سب سے زیادہ مشقت طلب ہے۔         دل کے ذریعہ بندہ اپنے پروردگار کی طرف چلتا ہے اور اس کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے لئے عمل کرنے والا، اسی کی طرف کوشش کرنے والا اور اسی کا قرب حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔ جب دل کا یہ مقام اور مرتبہ ہے تو اس کی لغزش۔ اللہ کی پناہ۔ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کا ٹیڑھ پن بہت برا بنادیتا ہے۔ اس کا سب سے کم نتیجہ سختی اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے اعراض ہے اور اس کا آخری نتیجہ دل بند ہوجانا، اس پر مہر لگ جانا اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے کفر ہے۔ اسی وجہ سے اے اللہ کے بندے تم پر سب سے زیادہ جو چیز تاکیدی طور پر واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے دل کی اصلاح کرو  اور اسے ان مصیبتوں اور گناہوں سے پاک کرو جو دل کو ہلاک اور برباد کردیتے ہیں۔ یہ معاملہ ایسے ہے جیسے شاعر کہتےہیں:؎         اگر تم اس سے نجات پالو تو تم بہت بڑی مصیبت سے نجات پالو گے                 ورنہ میں تمہیں نجات پانےوالا خیال نہیں کرتا         سب سے خطرناک مصیبت جس کی وجہ سے دل خراب ہوجاتا ہے اور اسے اس کی صحت اور درستگی سے ہٹا کر بیماری اور ٹیڑھ کی طرف موڑ دیتا ہے وہ حسد ہے۔         حسد کی بیماری بہت بڑی بیماری ہے اور اس میں مبتلا ہونا سب سے  سخت مصیبت ہے وہ حسد کرنے والےکو گناہوں اور نافرمانیوں کی سواری پر سوار کردیتی ہے اور اسے اہل تقویٰ اور إیمان کی منازل سے دور کردیتی ہے۔         اللہ ہی کو معلوم ہے کہ حسد کتنی بڑی مصیبت ہے! جس دل میں بھی داخل ہوتا ہے اسے خراب اور برباد کردیتا ہے اور حال اور آنے والا وقت تباہ کردیتا ہے۔         حسد پرانی بیماری ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ: ’’یہ وہ پہلا گناہ ہے جس سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔‘‘ یہ بات ناممکن نہیں ہے۔ اے مؤمنو!         آدمی حسد کے ذریعہ  مختلف قسم کے گناہوں اور معصیتوں میں پڑجاتا ہے، ان میں سے سب سے بلند گناہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا کفر ہے اور سب سے کم درجے کا گناہ بندوں کےلئے بھلائی کو ناپسند کرنا ہے۔ اللہ ہی کی  پناہ ہے کہ حسد نے کتنے بڑی مخلوق کو مصیبتوں اور پریشانیوں میں ڈال دیا ہے۔         کیا إبلیس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے اس کی ناراضگی اور لعنت کی طرف حسد نے نہیں نکالا؟         کیا قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد ہی کی وجہ سے قتل نہیں کیا؟         کیا حسد ہی کی وجہ سے کافروں کے اکثر شریف لوگوں نے انبیاء اور رسولوں کی اتباع سے منہ نہیں موڑا؟         کیا یہود اور نصاری صرف حسد کی وجہ سے مسلمان امت کو ناپسند  نہیں کرتے؟         اہل سنت علماء اور داعین، بیدار اور دعوت دینے والی جماعت جس نے  سنت اور تابعداری  کا لباس بہت زیادہ صرف اس چیز پر لالچ کرتے ہوئے  پہنا ہے جو  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((یا یہ لوگ اس بنا پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا فضل (کیوں) عطا فرمایا ہے؟ سو ہم نے تو  ابراہیم کے خاندان کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور انہیں بڑی سلطنت دی تھی۔))         لوگ جب کسی انسان کی طرح کوشش نہیں کرسکتے تو اس سے حسد کرنے لگ جاتے ہیں، اوراس کے ہم پلہ اور مخالف بن جاتے ہیں۔ اے مؤمنو!         نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو حسد سے ڈرایا اور بہت ساری احادیث میں حاسد کی عظیم سزا بتائی۔ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس میں حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بد گمانی  سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ غیبت کرو، نہ بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے دشمنی رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘         رسول اللہ ﷺ نے حسد کے  بندے کے دین کو بگاڑنے کی شدت بھی بیان فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں جسے إمام ترمذیؒ نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ایسی سند کےساتھ روایت کیا ہے جس میں کوئی حرج نہیں ہے: وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری طرف تم سے پہلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کرگئی ہے اور وہ مونڈنے والی ہے، دین کو مونڈنے والی ہے ناکہ بالوں کو مونڈنے والی ہے۔‘‘         رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حسد کا نیکیوں کو ختم کرنے اور طاعات کو خراب کرنے کی بھی خبر دی ہے۔ حضرت أبو ہریرہ  اور حضرت عبد اللہ بن کعب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم حسد سے ضرور بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔‘‘ مؤمنو!         وہ حسد جس کے بارے میں احادیث میں مذمت وارد ہوئی  اور اس سے ڈرایا گیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ انسان جس سے حسد کررہا ہے اس سے نعمت کے ختم ہونے کو پسند کرے۔         لیکن کسی بھلائی اور فضیلت میں کسی دوسرے کے برابر ہونے یا  اس سے آگے بڑھنے کو پسند کرنا، جیسے آپ یہ پسند کریں کہ فلاں کی نعمت اس  کے پاس بھی برقرار رہے اور آپ کو اسی طرح یا اس سے بھی زیادہ بھلائی اور فضیلت حاصل ہو جس طرح اسے  حاصل ہے۔ تو یہ خیر کے معاملہ  میں آگے بڑھنے پر للچانا ہے اور یہ قابل  مذمت حسد میں سے نہیں  ہے۔ اسی سے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ((اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانےوالوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہئے۔))اوراسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے: ’’حسد صرف دو طرح کے انسانوں کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے دانائی عطا کی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔ دوسرا وہ آدمی جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے مال دیا  اور اسے حق کے راستہ میں خرچ کرنے کی  قدرت دی۔‘‘         اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ حسد لاعلاج  اور ہلاک کرنے والی بیماری ہے، وہ اپنے تکبر کی وجہ سے کسی بڑے ، اپنی عزت اور اپنے علم کی وجہ سے کسی عالم کی عزت نہیں کرنے دیتی۔ بلکہ حسد چھوٹے بڑے، باعزت اور ذلیل اور عالم اور جاہل کے دل میں بھی داخل ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنے دلوں کو حسد سے پاک کرو اور حسد کے اسباب اور اس کی طرف بلانے والی چیزوں  کو ختم  کرنے کی بہت خواہش کرو، کیونکہ حسد سے نجات پختہ کامیابی ہے۔         اگر تم اس مصیبت سے نجات پاجاؤ تو بہت بڑی مصیبت سے نجات پاجاؤگے                 ورنہ میں تمہیں نجات پانے والا نہیں سمجھتا ایمان والو!         وہ چیز جس کے ذریعہ تم حسد سے کنارہ کش اور اسے چھوڑنے پر مدد حاصل کرسکتے ہو وہ یہ ہے  کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حسد کرنےوالا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی قدرت اور اس کی شریعت میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ضد اوراس کی  مخالفت کرتا ہے۔ حسد سے تم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے فیصلے سے ناراض ہوتے ہو اور اس نعمت کو ناپسند کرتے ہوجو اس نے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کی ہوتی ہے اور اس کے انصاف پر اعتراض کرتے ہو جو اس نے اپنی پوشیدہ حکمت اور بارک بین کاریگری سے اپنی بادشاہت میں قائم کیا ہوتا ہے۔تم اسے ناپسند اور برا سمجھتے ہو۔ اللہ کی قسم  یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جو کہ اکیلے اور بادشاہ ہیں ان کی توحید میں کمی کرنا ہے اور ایمان کی آنکھ میں گندگی ہے۔         اللہ ہی سے شکایت کی جاسکتی ہے کہ حسد کرنے والا انسان کتنا خبیث ہے جس نے   اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی اس کے حکم میں نافرمانی کی  اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے فیصلہ اور اس کی تقدیر کے بغیر ہی جلدی کی: ((بھلا کیا یہ لوگ ہیں جو تمہارے پروردگار کی رحمت تقسیم کریں گے، دنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کررکھے ہیں، اور ہم نے ہی ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے سےکام لے سکیں۔ اور تمہارے پروردگار کی رحمت تو اس (دولت) سے کہیں بہتر چیز ہے جو یہ جمع کررہے ہیں۔))         اس غلطی سے تمہارے  دل کو پاک کرنے میں تمہاری یہ بات بھی مدد کرسکتی ہے کہ: تمہیں یہ معلوم ہو کہ حسد کرنے والا حسد کی پہلی قربانی ہے۔ حسد کرنےوالا عذاب میں ہوتا ہے، حیران وپریشان رہتا ہے،یہاں تک کہ حسد کرنےوالے کی حالت کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے: ’’ہم نے  حسد کرنے والے سے بڑھ کر کوئی ظلم کرنے والا نہیں دیکھا جو مظلوم کی طرح ہے۔‘‘         بعض حضرات نے حسد کرنےوالے کی حالت اس طرح بیان  کی ہے: ’’طویل افسوس، غم کے ساتھ دوستی اور  بہت زیادہ جلتا ہے۔ اس کی نعمتوں کا مزہ کرکرا ہوتا ہے جن کا وہ کوئی ذائقہ محسوس نہیں کرتا۔ و ہ مخلوق پر ہر نعمت کو اپنی سزا سمجھتا ہے۔ وہ ہمیشہ پریشان اور ناراض رہتا ہے، اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اور یہ اس کی دنیا کی سزا ہے۔ بغیر دنیا حاصل کئے پریشانی اور غم ہیں اور اس کا دین بھی چلا جاتا ہے۔ لہٰذا نہ دنیا حاصل ہوئی اور نہ دین باقی رہا۔‘‘ اسی وجہ سے بعض ایسے لوگ جن سےدوسرے حسد کرتے تھے وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے یہ دعا کرتے تھے کہ ان سے حسد کرنے والے باقی رہیں، تاکہ ان کا عذاب طویل ہو، یہاں تک کہ ان میں سے ایک صاحب کہتے ہیں:         ’’اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ مجھ سے حسد کرنے والوں اور ان کے غم کو باقی رکھے تاکہ وہ ایسی بیماری سے مر جائیں جو چھپی ہوئی نہیں ہے۔‘‘         اے بھائیو! ہمارے دلوں کو حسد سے پاک کرنے میں یہ بات بھی مدد کرے گی کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ حسد گناہوں اور غلطیوں کی بہت ساری قسموں پر ابھارتا ہے، لہٰذا تمہارا شرک اور نافرمانی زیادہ  ہوجائے گی۔ حسد کی وجہ سے تم غیبت میں پڑجاؤگے، اسی کی وجہ سے تم مسلمانوں کے پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑوگے، بلکہ متقی حضرات، باعمل علماء اور  نیک دعوت دینے والوں کی بھی پوشیدہ چیزوں کے پیچھے پڑجاؤگے، تم لغزشوں اور گناہوں کی باتیں کروگے۔ اورفوری دلیلوں،  اپنی بات کو ٹھیک ثابت کرنے، خیر خواہی اور ان کے علاوہ دیگر بعض ان دعوں کے ذریعہ غلطیوں اور فساد کو پھیلاؤ گے جن سے دل کی ایسی بیماریاں چمٹی ہوتی ہیں جو دلوں میں بغض، حسد اور کینے کی صورت میں پروان چڑھتی ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اس بات کے سوا ہر بات نامنظور ہے کہ اس شخص  کو ذلیل اور رسوا کردے  جو اس کی نافرمانی کرے۔         تم مجھ سے ناچاہتے ہوئے بھی خوشی سے اس طرح ملتے ہو جیسے تم نصیحت کرنے والے ہو                 حالانکہ تمہاری آنکھوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمہارے دل میں میرے بارے میں بیماری ہے         تم سے ایسا عیب ظاہر ہوگیا ہے جسے کافی دیر سے چھپایا ہوا تھا                 تمہارے رنج وغم نے، یہاں تک کہ   تمہیں کہا جانے لگا کہ کیا تم جلنے والے ہو؟         حسد کے خلاف لڑائی کرنے اور اس سے اپنے آ پ کو خالی کرنے میں یہ بات بھی ہماری مدد کرے گی کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ حسد کرنے والا رسوا اور محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہوپاتااور اپنے دشمن پر غلبہ نہیں حاصل کرپاتا۔حسد کرنےوالوں کی مدد نہیں کی جاتی، کیونکہ ان کا مقصد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے مسلمان بندوں سے اس کی نعمت کو ختم کرنا ہوتا ہےاور ان کی مسلمانوں اور مؤمنین سےدشمنی ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((بیشک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آئے ہیں، یقین جانو کہ اللہ کسی دغا باز ناشکرے کو پسند نہیں کرتے۔))         وہ سب سے بڑی چیز جو انسان کو حسد چھوڑنے کے اعتبار سے  فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اس کی اس پر مدد کرتی ہے وہ اس چیز پر قناعت اختیار کرنا ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تقسیم کی ہے اور اس کا فیصلہ فرمایا ہے، کیونکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنے فضل اور سخاوت کی حالت زیادہ جاننے والے ہیں۔         لہٰذا اے مؤمن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تقسیم پر اپنے نفس کو اچھا رکھو اور اپنی آنکھ کو اس کےفیصلے اور اس کی تقدیر پر ٹھنڈا کرو،  کیونکہ اس کا اقتدار بھی کامل ہے، اس کی حکمت بھی کامل، وہ ہر چیز کا مکمل علم رکھنے والا، ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔         حسد کی بلندی کو توڑنے اور اس کو شروع سے ہی  کند کرنے پر  یہ بات بھی ہماری مدد کرے  گی کہ جس سے حسد کیا جارہا ہے وہ اپنی بات یا  عمل سے اس  کے برعکس معاملہ کرے جس کا حسد کا تقاضا کرتا ہے، چنانچہ وہ حسد کرنےوالے کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے اور اس سے بھلائی او رسخاوت کا معاملہ کرے۔ امید ہے کہ اس بری بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنے میں تمہاری یہ کوشش حاسد کی مدد کرے اور تم نے اسے جو بھلائیاں پہنچائی ہیں اس کی وجہ سے وہ محبت کرنے والا بن جائے گا، کیونکہ جو شخص کڑوی دوائی پر صبر نہیں کرتا وہ شفایابی حاصل نہیں کرتا۔         لہٰذا صبر ایسا پیالہ ہے جس کا ذائقہ کڑوا ہے لیکن اس کا انجام شہد سے بھی میٹھا ہے۔ دوسرا خطبہ: أمابعد!         اے بھائیو! جان لو کہ حسد عام طور سے بہت سارے لوگوں کے دلوں  میں پھیلا ہوا ہے، یہاں تک کہ ایک صاحب لوگوں میں   حسد کے زیادہ ہونے اور اس کے پھیلنے کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں:         میں آج کی طرح زیادہ حسد کرنے والے نہیں دیکھتا                 گویا لوگوں کے دل ایک انسان کا دل بن گئے ہیں         حسد کے پھیلنے کاراز لوگوں کا دنیا کی طرف زیادہ متوجہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ فتنےمیں پڑگئے ہیں، یہاں تک کہ حسد نے بہت سارے دلوں کو پکڑ لیا ہے۔ لوگ حسد کے باوجود دوستی کرتے ہیں اور حسد کی وجہ سے ہی دشمنیاں کرتے ہیں۔ دنیا جتنی مرضی کشادہ ہوجائے لیکن لوگوں کے دل کشادہ نہیں ہوں گے، اسی وجہ سے لوگ دنیا میں اپنے گھروں میں آپس میں لڑرہے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان چیزوں کو سمجھ جائیں جو انہیں فائدہ دیں تو وہ اپنی آنکھیں حسد سےروک لیں، اور اپنی آنکھیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اس فضل، احسان اور کرم کی طرف لمبی کریں جس کی وسعت ہر چیز سے زیادہ ہے، کیونکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فضل، اس کی رحمت، اس کے احسانات اور اس کا کرم کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے اور اس کی سخاوت، نوازنے اور تحفے دینے کے سمندر خشک ہونے والے نہیں ہیں۔         اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے اس کا فضل مانگو جیسا کہ اس نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے، کیونکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جو دیں اسے کوئی روکنے والانہیں ہے اور جس چیز کو روک لیں تو اسے کوئی دینے والا نہیں ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اور جن چیزوں میں ہم نے تم کو ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے، ان کی تمنا نہ کرو، مرد جو کچھ کمائی کریں گےان کو اس میں سے حصہ ملے گا، اور عورتیں جو کچھ کمائی کریں گی ان کو اس میں سے حصہ ملے گا۔ اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔)) اے مؤمنو!         اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ حاسدوں کے شر سےپناہ مانگو۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((کہو کہ: میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں(۱)۔ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔(۲) اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ  پھیل جائے۔ (۳) اور ان جانوں کےشر سے جو (گنڈے کی ) گرہوں میں پھونک مارتی ہیں۔ (۴) اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔(۵) )) حسد میں بہت زیادہ شر اور نقصان  ہیں۔ یہ سورت حسد کا بہت بڑا علاج ہے، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ صبح اور شام، نمازوں کے بعد اور سوتے وقت ان سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔ یہ اسی وجہ سے تھا کیونکہ ان میں بہت عظیم فائدہ اور شر اور اس کے اسباب کو ہٹانےکا کافی سامان موجود ہے۔ لہٰذا ان سورتوں اور عام اذکار پر بہت حریص ہو، کیونکہ  وہ حسد کرنےوالے کے شر کو دور کرنے کا سبب ہیں۔         حسد کرنے والے کے شر کو دور کرنے کے اسباب میں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ بھی ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ سےڈرے گا اللہ ا سکے لیے مشکل سے نکلنے کاکوئی راستہ پیدا کردے گا۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔         حسد کرنے والے کے شرکو دور کرنےکے اسباب میں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پر توکل بھی ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا، تو اللہ اس (کاکام بنانے) کے لیے کافی  ہے۔ یعنی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اسے بچانے والے ہیں۔         حسد کرنے والے کے شر سے بچنے کا ایک سبب گناہوں اور نافرمانیوں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے توبہ کرنا بھی ہے، کیونکہ توبہ شر اور فساد کو ختم کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ: ’’بندے پر جب زیادتی  کی جائے، یا اسے تکلیف پہنچائی جائے یا اس پر دشمن مسلط ہوجائے تو اسے سچی توبہ سے زیادہ  کوئی چیز فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے۔‘‘         لہٰذا اے مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔         حسد اور حاسد  ،  ظالم اور تکلیف دینے والے کے شر کوختم کرنے کے اسباب میں سے یہ بات بھی ہے کہ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا جائے۔ جب  بھی وہ تکلیف ، شر، ظلم اور حسد زیادہ کریں تو اے ہدایت پانے والے۔ تم ان کے ساتھ احسان، ان کے لئے خیر خواہی اور ان پر رحم کے اعتبار سے زیادہ ہوجاؤ۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، تم بدی کا دفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ دیکھتےہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ (تمہارا) جگری دوست ہو۔))         وہ بات کتنی اچھی ہے جو شاعر نے  کہی ہے:؎                 تم لوگوں سے احسان کا معاملہ کرکے ان کے دلوں کو غلام بنالو گے                         کیونکہ ہمیشہ احسان انسان کو غلام بنالیتا ہے۔ خطبة: رسالة إلى حاسد

المشاهدات:1946
- Aa +

خطبۂ اول:

تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

امابعد!

        اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور اپنے دل کو بیماریوں، مصیبتوں، برائیوں اور گناہوں سے پاک کرو، کیونکہ دل دیگر اعضاء کا سردار ہے اور وہ اس کے تابع ہیں۔ دل انہیں جیسے چاہتاہے استعمال کرتا ہے اور جیسے چاہتا ہے ان سے خدمت لیتا ہے۔ دیگر اعضاء دل کے کام اور اس کی دھڑکن میں ذرائع کا کام کرتےہیں۔ دل سے ہی دیگر اعضاء درست یا خراب ہوتے ہیں۔ اس بات کی گواہی اور اس کی طرف رہنمائی  وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرات شیخین نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آگاہ رہو جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔‘‘

        دل سب سے زیادہ باعزّت عضو، سب سے زیادہ عظیم حصّہ، اثر کرنےکے اعتبار سے سب سے زیادہ، حالت کے اعتبار سے سب سے زیادہ  پیچیدہ اور اصلاح کے اعتبار سے سب سے زیادہ مشقّت طلب ہے۔

        دل کے ذریعہ بندہ اپنے پروردگار کی طرف چلتا ہے اور اس کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے لئے عمل کرنے والا، اسی کی طرف کوشش کرنے والا اور اسی کا قرب حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔ جب دل کا یہ مقام اور مرتبہ ہے تو اس کی لغزش۔ اللہ کی پناہ۔ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کا ٹیڑھ پن بہت برا بنادیتا ہے۔ اس کا سب سے کم نتیجہ سختی اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے اعراض ہے اور اس کا آخری نتیجہ دل بند ہوجانا، اس پر مہر لگ جانا اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے کفر ہے۔ اسی وجہ سے اے اللہ کے بندے تم پر سب سے زیادہ جو چیز تاکیدی طور پر واجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے دل کی اصلاح کرو  اور اسے ان مصیبتوں اور گناہوں سے پاک کرو جو دل کو ہلاک اور برباد کردیتے ہیں۔ یہ معاملہ ایسے ہے جیسے شاعر کہتےہیں:؎

        اگر تم اس سے نجات پالو تو تم بہت بڑی مصیبت سے نجات پالو گے

                ورنہ میں تمہیں نجات پانےوالا خیال نہیں کرتا

        سب سے خطرناک مصیبت جس کی وجہ سے دل خراب ہوجاتا ہے اور اسے اس کی صحت اور درستگی سے ہٹا کر بیماری اور ٹیڑھ کی طرف موڑ دیتا ہے وہ حسد ہے۔

        حسد کی بیماری بہت بڑی بیماری ہے اور اس میں مبتلا ہونا سب سے  سخت مصیبت ہے وہ حسد کرنے والےکو گناہوں اور نافرمانیوں کی سواری پر سوار کردیتی ہے اور اسے اہلِ تقویٰ اور إیمان کی منازل سے دور کردیتی ہے۔

        اللہ ہی کو معلوم ہے کہ حسد کتنی بڑی مصیبت ہے! جس دل میں بھی داخل ہوتا ہے اسے خراب اور برباد کردیتا ہے اور حال اور آنے والا وقت تباہ کردیتا ہے۔

        حسد پرانی بیماری ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ: ’’یہ وہ پہلا گناہ ہے جس سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔‘‘ یہ بات ناممکن نہیں ہے۔

اے مؤمنو!

        آدمی حسد کے ذریعہ  مختلف قسم کے گناہوں اور معصیتوں میں پڑجاتا ہے، ان میں سے سب سے بلند گناہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا کفر ہے اور سب سے کم درجے کا گناہ بندوں کےلئے بھلائی کو ناپسند کرنا ہے۔ اللہ ہی کی  پناہ ہے کہ حسد نے کتنے بڑی مخلوق کو مصیبتوں اور پریشانیوں میں ڈال دیا ہے۔

        کیا إبلیس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے اس کی ناراضگی اور لعنت کی طرف حسد نے نہیں نکالا؟

        کیا قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد ہی کی وجہ سے قتل نہیں کیا؟

        کیا حسد ہی کی وجہ سے کافروں کے اکثر شریف لوگوں نے انبیاء اور رسولوں کی اتباع سے منہ نہیں موڑا؟

        کیا یہود اور نصاری صرف حسد کی وجہ سے مسلمان اُمّت کو ناپسند  نہیں کرتے؟

        اہلِ سنّت علماء اور داعین، بیدار اور دعوت دینے والی جماعت جس نے  سنّت اور تابعداری  کا لباس بہت زیادہ صرف اس چیز پر لالچ کرتے ہوئے  پہنا ہے جو  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((یا یہ لوگ اس بنا پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا فضل (کیوں) عطا فرمایا ہے؟ سو ہم نے تو  ابراہیم کے خاندان کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور انہیں بڑی سلطنت دی تھی۔))

        لوگ جب کسی انسان کی طرح کوشش نہیں کرسکتے تو اس سے حسد کرنے لگ جاتے ہیں، اوراس کے ہم پلّہ اور مخالف بن جاتے ہیں۔

اے مؤمنو!

        نبی کریم ﷺ نے اپنی اُمّت کو حسد سے ڈرایا اور بہت ساری احادیث میں حاسد کی عظیم سزا بتائی۔ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس میں حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بد گمانی  سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ غیبت کرو، نہ بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے دشمنی رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘

        رسول اللہ ﷺ نے حسد کے  بندے کے دین کو بگاڑنے کی شدت بھی بیان فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں جسے إمام ترمذیؒ نے حضرت زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہ سے ایسی سند کےساتھ روایت کیا ہے جس میں کوئی حرج نہیں ہے: وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری طرف تم سے پہلی اُمّتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کرگئی ہے اور وہ مونڈنے والی ہے، دین کو مونڈنے والی ہے ناکہ بالوں کو مونڈنے والی ہے۔‘‘

        رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حسد کا نیکیوں کو ختم کرنے اور طاعات کو خراب کرنے کی بھی خبر دی ہے۔ حضرت أبو ہریرہ  اور حضرت عبد اللہ بن کعب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم حسد سے ضرور بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔‘‘

مؤمنو!

        وہ حسد جس کے بارے میں احادیث میں مذمّت وارد ہوئی  اور اس سے ڈرایا گیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ انسان جس سے حسد کررہا ہے اس سے نعمت کے ختم ہونے کو پسند کرے۔

        لیکن کسی بھلائی اور فضیلت میں کسی دوسرے کے برابر ہونے یا  اس سے آگے بڑھنے کو پسند کرنا، جیسے آپ یہ پسند کریں کہ فلاں کی نعمت اس  کے پاس بھی برقرار رہے اور آپ کو اسی طرح یا اس سے بھی زیادہ بھلائی اور فضیلت حاصل ہو جس طرح اسے  حاصل ہے۔ تو یہ خیر کے معاملہ  میں آگے بڑھنے پر للچانا ہے اور یہ قابلِ  مذمّت حسد میں سے نہیں  ہے۔ اسی سے جنّت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ((اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانےوالوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہئے۔))اوراسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے: ’’حسد صرف دو طرح کے انسانوں کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے دانائی عطا کی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔ دوسرا وہ آدمی جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے مال دیا  اور اسے حق کے راستہ میں خرچ کرنے کی  قدرت دی۔‘‘

        اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ حسد لاعلاج  اور ہلاک کرنے والی بیماری ہے، وہ اپنے تکبّر کی وجہ سے کسی بڑے ، اپنی عزّت اور اپنے علم کی وجہ سے کسی عالم کی عزّت نہیں کرنے دیتی۔ بلکہ حسد چھوٹے بڑے، باعزّت اور ذلیل اور عالم اور جاہل کے دل میں بھی داخل ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنے دلوں کو حسد سے پاک کرو اور حسد کے اسباب اور اس کی طرف بلانے والی چیزوں  کو ختم  کرنے کی بہت خواہش کرو، کیونکہ حسد سے نجات پختہ کامیابی ہے۔

        اگر تم اس مصیبت سے نجات پاجاؤ تو بہت بڑی مصیبت سے نجات پاجاؤگے

                ورنہ میں تمہیں نجات پانے والا نہیں سمجھتا

ایمان والو!

        وہ چیز جس کے ذریعہ تم حسد سے کنارہ کش اور اسے چھوڑنے پر مدد حاصل کرسکتے ہو وہ یہ ہے  کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حسد کرنےوالا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی قدرت اور اس کی شریعت میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ضد اوراس کی  مخالفت کرتا ہے۔ حسد سے تم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے فیصلے سے ناراض ہوتے ہو اور اس نعمت کو ناپسند کرتے ہوجو اس نے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کی ہوتی ہے اور اس کے انصاف پر اعتراض کرتے ہو جو اس نے اپنی پوشیدہ حکمت اور بارک بین کاریگری سے اپنی بادشاہت میں قائم کیا ہوتا ہے۔تم اسے ناپسند اور برا سمجھتے ہو۔ اللہ کی قسم  یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جو کہ اکیلے اور بادشاہ ہیں ان کی توحید میں کمی کرنا ہے اور ایمان کی آنکھ میں گندگی ہے۔

        اللہ ہی سے شکایت کی جاسکتی ہے کہ حسد کرنے والا انسان کتنا خبیث ہے جس نے   اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی اس کے حکم میں نافرمانی کی  اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے فیصلہ اور اس کی تقدیر کے بغیر ہی جلدی کی: ((بھلا کیا یہ لوگ ہیں جو تمہارے پروردگار کی رحمت تقسیم کریں گے، دُنیوی زندگی میں ان کی روزی کے ذرائع بھی ہم نے ہی ان کے درمیان تقسیم کررکھے ہیں، اور ہم نے ہی ان میں سے ایک کو دُوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے سےکام لے سکیں۔ اور تمہارے پروردگار کی رحمت تو اُس (دولت) سے کہیں بہتر چیز ہے جو یہ جمع کررہے ہیں۔))

        اس غلطی سے تمہارے  دل کو پاک کرنے میں تمہاری یہ بات بھی مدد کرسکتی ہے کہ: تمہیں یہ معلوم ہو کہ حسد کرنے والا حسد کی پہلی قربانی ہے۔ حسد کرنےوالا عذاب میں ہوتا ہے، حیران وپریشان رہتا ہے،یہاں تک کہ حسد کرنےوالے کی حالت کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے: ’’ہم نے  حسد کرنے والے سے بڑھ کر کوئی ظلم کرنے والا نہیں دیکھا جو مظلوم کی طرح ہے۔‘‘

        بعض حضرات نے حسد کرنےوالے کی حالت اس طرح بیان  کی ہے: ’’طویل افسوس، غم کے ساتھ دوستی اور  بہت زیادہ جلتا ہے۔ اس کی نعمتوں کا مزہ کرکرا ہوتا ہے جن کا وہ کوئی ذائقہ محسوس نہیں کرتا۔ و ہ مخلوق پر ہر نعمت کو اپنی سزا سمجھتا ہے۔ وہ ہمیشہ پریشان اور ناراض رہتا ہے، اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اور یہ اس کی دنیا کی سزا ہے۔ بغیر دنیا حاصل کئے پریشانی اور غم ہیں اور اس کا دین بھی چلا جاتا ہے۔ لہٰذا نہ دنیا حاصل ہوئی اور نہ دین باقی رہا۔‘‘ اسی وجہ سے بعض ایسے لوگ جن سےدوسرے حسد کرتے تھے وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے یہ دعا کرتے تھے کہ ان سے حسد کرنے والے باقی رہیں، تاکہ ان کا عذاب طویل ہو، یہاں تک کہ ان میں سے ایک صاحب کہتے ہیں:

        ’’اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ مجھ سے حسد کرنے والوں اور ان کے غم کو باقی رکھے تاکہ وہ ایسی بیماری سے مر جائیں جو چھپی ہوئی نہیں ہے۔‘‘

        اے بھائیو! ہمارے دلوں کو حسد سے پاک کرنے میں یہ بات بھی مدد کرے گی کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ حسد گناہوں اور غلطیوں کی بہت ساری قسموں پر ابھارتا ہے، لہٰذا تمہارا شرک اور نافرمانی زیادہ  ہوجائے گی۔ حسد کی وجہ سے تم غیبت میں پڑجاؤگے، اسی کی وجہ سے تم مسلمانوں کے پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑوگے، بلکہ متّقی حضرات، باعمل علماء اور  نیک دعوت دینے والوں کی بھی پوشیدہ چیزوں کے پیچھے پڑجاؤگے، تم لغزشوں اور گناہوں کی باتیں کروگے۔ اورفوری دلیلوں،  اپنی بات کو ٹھیک ثابت کرنے، خیر خواہی اور ان کے علاوہ دیگر بعض ان دعوں کے ذریعہ غلطیوں اور فساد کو پھیلاؤ گے جن سے دل کی ایسی بیماریاں چمٹی ہوتی ہیں جو دلوں میں بغض، حسد اور کینے کی صورت میں پروان چڑھتی ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اس بات کے سوا ہر بات نامنظور ہے کہ اس شخص  کو ذلیل اور رسوا کردے  جو اس کی نافرمانی کرے۔

        تم مجھ سے ناچاہتے ہوئے بھی خوشی سے اس طرح ملتے ہو جیسے تم نصیحت کرنے والے ہو

                حالانکہ تمہاری آنکھوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمہارے دل میں میرے بارے میں بیماری ہے

        تم سے ایسا عیب ظاہر ہوگیا ہے جسے کافی دیر سے چھپایا ہوا تھا

                تمہارے رنج وغم نے، یہاں تک کہ   تمہیں کہا جانے لگا کہ کیا تم جلنے والے ہو؟

        حسد کے خلاف لڑائی کرنے اور اس سے اپنے آ پ کو خالی کرنے میں یہ بات بھی ہماری مدد کرے گی کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ حسد کرنے والا رسوا اور محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہوپاتااور اپنے دشمن پر غلبہ نہیں حاصل کرپاتا۔حسد کرنےوالوں کی مدد نہیں کی جاتی، کیونکہ ان کا مقصد اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے مسلمان بندوں سے اس کی نعمت کو ختم کرنا ہوتا ہےاور ان کی مسلمانوں اور مؤمنین سےدشمنی ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((بیشک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آئے ہیں، یقین جانو کہ اللہ کسی دغا باز ناشکرے کو پسند نہیں کرتے۔))

        وہ سب سے بڑی چیز جو انسان کو حسد چھوڑنے کے اعتبار سے  فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اس کی اس پر مدد کرتی ہے وہ اس چیز پر قناعت اختیار کرنا ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تقسیم کی ہے اور اس کا فیصلہ فرمایا ہے، کیونکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنے فضل اور سخاوت کی حالت زیادہ جاننے والے ہیں۔

        لہٰذا اے مؤمن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تقسیم پر اپنے نفس کو اچھا رکھو اور اپنی آنکھ کو اس کےفیصلے اور اس کی تقدیر پر ٹھنڈا کرو،  کیونکہ اس کا اقتدار بھی کامل ہے، اس کی حکمت بھی کامل، وہ ہر چیز کا مکمل علم رکھنے والا، ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔

        حسد کی بلندی کو توڑنے اور اس کو شروع سے ہی  کند کرنے پر  یہ بات بھی ہماری مدد کرے  گی کہ جس سے حسد کیا جارہا ہے وہ اپنی بات یا  عمل سے اس  کے برعکس معاملہ کرے جس کا حسد کا تقاضا کرتا ہے، چنانچہ وہ حسد کرنےوالے کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے اور اس سے بھلائی او رسخاوت کا معاملہ کرے۔ امید ہے کہ اس بری بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنے میں تمہاری یہ کوشش حاسد کی مدد کرے اور تم نے اسے جو بھلائیاں پہنچائی ہیں اس کی وجہ سے وہ محبّت کرنے والا بن جائے گا، کیونکہ جو شخص کڑوی دوائی پر صبر نہیں کرتا وہ شفایابی حاصل نہیں کرتا۔

        لہٰذا صبر ایسا پیالہ ہے جس کا ذائقہ کڑوا ہے لیکن اس کا انجام شہد سے بھی میٹھا ہے۔

دوسرا خطبہ:

أمابعد!
        اے بھائیو! جان لو کہ حسد عام طور سے بہت سارے لوگوں کے دلوں  میں پھیلا ہوا ہے، یہاں تک کہ ایک صاحب لوگوں میں   حسد کے زیادہ ہونے اور اس کے پھیلنے کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

        میں آج کی طرح زیادہ حسد کرنے والے نہیں دیکھتا

                گویا لوگوں کے دل ایک انسان کا دل بن گئے ہیں

        حسد کے پھیلنے کاراز لوگوں کا دنیا کی طرف زیادہ متوجّہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ فتنےمیں پڑگئے ہیں، یہاں تک کہ حسد نے بہت سارے دلوں کو پکڑ لیا ہے۔ لوگ حسد کے باوجود دوستی کرتے ہیں اور حسد کی وجہ سے ہی دشمنیاں کرتے ہیں۔ دنیا جتنی مرضی کشادہ ہوجائے لیکن لوگوں کے دل کشادہ نہیں ہوں گے، اسی وجہ سے لوگ دنیا میں اپنے گھروں میں آپس میں لڑرہے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان چیزوں کو سمجھ جائیں جو انہیں فائدہ دیں تو وہ اپنی آنکھیں حسد سےروک لیں، اور اپنی آنکھیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اس فضل، احسان اور کرم کی طرف لمبی کریں جس کی وسعت ہر چیز سے زیادہ ہے، کیونکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فضل، اس کی رحمت، اس کے احسانات اور اس کا کرم کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے اور اس کی سخاوت، نوازنے اور تحفے دینے کے سمندر خشک ہونے والے نہیں ہیں۔

        اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے اس کا فضل مانگو جیسا کہ اس نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے، کیونکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جو دیں اسے کوئی روکنے والانہیں ہے اور جس چیز کو روک لیں تو اسے کوئی دینے والا نہیں ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اور جن چیزوں میں ہم نے تم کو ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے، ان کی تمنا نہ کرو، مرد جو کچھ کمائی کریں گےان کو اس میں سے حصہ ملے گا، اور عورتیں جو کچھ کمائی کریں گی ان کو اس میں سے حصہ ملے گا۔ اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔))

اے مؤمنو!

        اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ حاسدوں کے شر سےپناہ مانگو۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((کہو کہ: میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں(۱)۔ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔(۲) اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ  پھیل جائے۔ (۳) اور ان جانوں کےشر سے جو (گنڈے کی ) گرہوں میں پھونک مارتی ہیں۔ (۴) اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔(۵) )) حسد میں بہت زیادہ شر اور نقصان  ہیں۔ یہ سورت حسد کا بہت بڑا علاج ہے، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ صبح اور شام، نمازوں کے بعد اور سوتے وقت ان سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔ یہ اسی وجہ سے تھا کیونکہ ان میں بہت عظیم فائدہ اور شر اور اس کے اسباب کو ہٹانےکا کافی سامان موجود ہے۔ لہٰذا ان سورتوں اور عام اذکار پر بہت حریص ہو، کیونکہ  وہ حسد کرنےوالے کے شر کو دور کرنے کا سبب ہیں۔

        حسد کرنے والے کے شر کو دور کرنے کے اسباب میں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے تقویٰ بھی ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ سےڈرے گا اللہ ا سکے لیے مشکل سے نکلنے کاکوئی راستہ پیدا کردے گا۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔

        حسد کرنے والے کے شرکو دور کرنےکے اسباب میں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پر توکّل بھی ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا، تو اللہ اس (کاکام بنانے) کے لیے کافی  ہے۔ یعنی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اسے بچانے والے ہیں۔

        حسد کرنے والے کے شر سے بچنے کا ایک سبب گناہوں اور نافرمانیوں سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے توبہ کرنا بھی ہے، کیونکہ توبہ شر اور فساد کو ختم کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔ علّامہ ابنِ قیّم رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ: ’’بندے پر جب زیادتی  کی جائے، یا اسے تکلیف پہنچائی جائے یا اس پر دشمن مسلّط ہوجائے تو اسے سچی توبہ سے زیادہ  کوئی چیز فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے۔‘‘

        لہٰذا اے مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔

        حسد اور حاسد  ،  ظالم اور تکلیف دینے والے کے شر کوختم کرنے کے اسباب میں سے یہ بات بھی ہے کہ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا جائے۔ جب  بھی وہ تکلیف ، شر، ظلم اور حسد زیادہ کریں تو اے ہدایت پانے والے۔ تم ان کے ساتھ احسان، ان کے لئے خیر خواہی اور ان پر رحم کے اعتبار سے زیادہ ہوجاؤ۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، تم بدی کا دفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ دیکھتےہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ (تمہارا) جگری دوست ہو۔))

        وہ بات کتنی اچھی ہے جو شاعر نے  کہی ہے:؎

                تم لوگوں سے احسان کا معاملہ کرکے ان کے دلوں کو غلام بنالو گے

                        کیونکہ ہمیشہ احسان انسان کو غلام بنالیتا ہے۔

خطبة: رسالة إلى حاسد

المادة السابقة
المادة التالية

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83532 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78500 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72772 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60764 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55148 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52323 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49594 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات48326 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44934 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44249 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف