×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / ہجرت کی خبر

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

خطبہ اول: یقینا تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں  ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مد د چاہتے ہیں ،جس کو اللہ تعالی ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا،اور جس کو اللہ تعالی گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سواکوئی عبادت کےلائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں،اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اما بعد ۔۔۔  اے ایمان والو! اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور حق دین کےساتھ بھیجا ہے تا کہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کردے ،اور اللہ تعالی گواہ کافی ہے ،اللہ تعالی نےآپ ﷺ کو بہت سارے فضائل کے ساتھ خاص فرمایا ہے ،جن کےذریعہ اللہ تعالی نے پچھلے اور اگلے لوگوں پر احسان کیا ہے ،ان فضائل   اور خصوصیات کوسب سے زیادہ واضح کرنے والی چیز آپ ﷺ کی سیرت طیبہ ہے ،آپ کی سیرت طیبہ آپ کے فضل  اور سچائی کی نشانیوں  کے دلائل میں سے سب سے بڑی دلیل ہے ،سیرت طیبہ آپ کی رسالت اور نبوت کی سچائی  کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی ہے ،ابن حزم ؒ نے فرمایا ہےکہ آپ ﷺ کی سیرت میں جو بھی غور کرے گا وہ آپ کی تصدیق کا قائل ہوجائے گا،اور اس کو سیرت طیبہ یہ گواہی دے گی کہ آپ ﷺ سچے نبی ہیں ،اگر آپ ﷺ کے دوسرے معجزات نہ بھی ہوتے توسیرت ہی کافی ہوتی۔ کیسے نہ ہو؟آپ کی سیرت ،آپ کی سنت  اور آپ کی زندگی دین اسلام کےلیے عملی مطابقت ہے ،سیرت ہی کے ذریعہ سے انسان شریعت کی سمجھ  حاصل کرلیتا ہے ،اور سیر ت کے ذریعہ سے آپ ﷺ کی محبت اور ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ،آپ ﷺ اور آپ کی سیرت کا ذکر دلوں کو زندہ کرتاہے ،دلوں کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے ،مندرجہ ذیل کلام جس نے بھی کہا ہے اچھا کہا ہے: جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو آپ کے ذکر سے ہم علاج کرتے ہیں ،اورجب ہم آپ کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں تو بیمار ہوجاتےہیں۔ علماء اور اولیاء کے ہاں سیرت طیبہ کوئی قصہ نہیں جس کو پڑھاجائے ،نہ اشعار ہیں جن کو کہاجائے ،نہ تعریفیں ہیں جن کو پرویاجائے ،بلکہ وہ تو سنت ہے جس کے ذریعہ سے عقل والے عمل کرتے ہیں ،اسی کے ساتھ باتوں ،اعمال اور آدمیوں کو تولا جائےگا،یہ بعض وہ چیزیں ہیں جن کو اسلاف نے سیرت طیبہ سے جمع کیا ہے ،اور ان کو اپنی کتابوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اے ایمان والو! بیشک سیر ب طیبہ عبرتوں ،اسباق،بڑے حادثات اور عظیم خبروں سے بھری ہوئی ہے ،ان روشن مناروں ،بڑے واقعات  جنہوں نے  انسانی تاریخ بدل دی،زمین کو نور سے روشن کردیا ، ان میں سے ایک واقعہ ہجرت بھی ہے ،جو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ فرمائی تھی ،میں آپ کی خدمت میں اس عظیم واقعہ کا کچھ حصہ رکھناچاہتا ہوں۔ سیرت نگاروں نے کہا ہےکہ جب قریش کا آپ ﷺ کو تنگ کرنا انتہاء کو پہنچ گیا،قریش نے مشورے کے بعد یہ طے کرلیا کہ آپ ﷺ کو قتل کیا جائے ،جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد ہے: ((اور اس وقت کو یاد کرو جب کافروں نے چال چلی کہ آپ کو ثابت رکھے یا قتل کردیں یا نکال دیں ،وہ بھی مکر کررہے تھے اور اللہ تعالی بھی مکر کررہا تھا اللہ تعالی بہترین مکرکرنے والا ہے ))۔ آپ کے پاس جبرائیل آکر پوری بات بتادی،اور کہا:آپ یہ رات اپنے بستر پر نہ گذاریں ،اللہ تعالی آپ کو ہجرت کا حکم کررہا ہے ،تو آپ ﷺ نکلے اور اپنے ساتھ رفاقت کےلیے اس امت کےصدیق اور نبی کےبعد سب سے افضل شخص کا انتخاب کیا،توآپ ﷺ او رابوبکر رضی اللہ عنہ غار ثور میں تین راتیں چھپے رہے ،ان کےساتھ عبد اللہ بن ابی بکر بھی رات گذارتے تھے جو اس وقت نوجوان تھے ،ان سے صبح سویرے نکلتے تھے اور صبح مکہ میں قریش کے ساتھ کرتے تھے  جیسے کہ رات ادھر ہی گذاری ہو،جو بات بھی  آپ ﷺ کے بارے میں قریش سے سنتے تھے اس کو آپ ﷺ تک پہنچاتے تھے ،تین راتیں اسی طرح کرتے رہے ،قریش تمام راستوں میں بیٹھ گئے ،ہر بھاگنے کی جگہ  کی تفتیش کرنے لگے ،مکہ کے پہاڑوں  میں اپنے بندے بٹھانے لگے ،یہاں تک کہ غارثور کے قریب پہنچ گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت گھبراگئے  اور آپ ﷺ ان کو کہہ رہے تھے :”اے ابوبکر !تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کا تیسرا خدا ہے ؟“اسی بات کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:  ((اگر تم ان کی مدد نہ کرو گے تو اللہ نے ان کی مدد کی ہے جب کافروں نے ان کو نکالا ،وہ دو میں سے دوسرے تھے غار میں ،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے غم نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ))،تو اللہ تعالی نے کفار کی آنکھوں کو  اپنے نبی اور ان کے ساتھی سے  اندھا کردیا ،جب  تین راتیں گذر گئیں اور تلاش میں مشرکین کا جذبہ ٹھنڈا ہوگیا،تو عبد اللہ بن ابی اریقط آیا ،اس کےساتھ آپ ﷺ اور ابو بکر صدیق  مدینہ منورہ کی طرف چلے گئے،لیکن قریش کو ان کو واپس لانے میں ناکامی سے دھوک ہوا ،مشرکین نے ان دونوں کو زندہ یا مردہ لا نے پر انعام مقرر کیا تھا ،اس انعام کی لالچ نے بہت سارے نوجوانوں کو  ان کا پیچھا کرنے پر ابھارا تھا،انہوں نے آپ ﷺ اور آپ کےساتھی کو تلاش کرنے کےلیے بہت کوشش کی،خطرناک راستوں میں گئے ،مشقتیں برداشت کیں،ان نوجوانوں میں سے ایک سراقہ بن مالک بن جعشم بھی تھے ،وہ بھی آپ ﷺ کی تلاش میں نکلا۔ اے ایمان والو!سن لو جو سراقہ کےساتھ ہوا،وہ کہتے ہیں کہ "میں بنی مدلج میں اپنی قوم کے ساتھ مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ،اچانک ایک شخص آکر ہمارے پاس کھڑا ہوگیا،ہم بیٹھے ہوئے تھے ،تو اس نے کہا :اے سراقہ !میں نے ساحل پر ایک قافلہ دیکھا ہے میرا خیال یہ ہے کہ:وہ محمد اور ان کےساتھیوں کا ہے ،سراقہ نے کہا ہے کہ میں نےپہچان لیا واقعی وہ ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن میں نے ان سے کہاوہ نہیں ہیں ،بلکہ آپ نے فلاں اور فلاں کو دیکھا ہوگا،پھر میں تھوڑی دیر مجلس میں رہ کر ادھرسے اٹھ گیا،گھر میں جاکر باندھی سے کہ میراگھوڑا نکالو،میں نے نیزہ لیا  اور اپنے گھوڑے کو لے کر گھر کے پیچھے سے نکل گیا ،میں گھوڑے پر سوار ہو کر چل پڑا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قریب پہنچا،میرا گھوڑا لڑکڑایا  جس کی وجہ سے میں گر پڑا،پھر میں کھڑا ہو کر گھوڑے پر  دوسری دفعہ سوار ہوگیا اور گھوڑے کو ڈانٹا،میں چل پڑا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی قریب ہوگیا ،میں نے آپ ﷺ کی قراءت سن لی،آپ ﷺ ادھر ادھر توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن ابو بکر صدیق ادھر ادھر متوجہ ہورہے تھے ،جب میں ان کے بالکل قریب ہوگیا تو میرے گھوڑے کی اگلی دونوں ٹانگیں زمین میں دھنس گئیں ،یہا ں تک کہ گھٹنوں تک اندر چلی گئیں ،میں اس سے گرپڑا ،پھر میں اٹھ گیا ،گھوڑے کو ڈانٹا،وہ سیدھا کھڑا ہوگیا،اس کی دونوں ٹانگوں سے ایک دھواں نکلا جو آسمان تک چڑھ گیا،میں نے ان کو آواز دی کہ بچاؤ،وہ رک گئے ،میں گھوڑے پر سوار ہو کر ان کےپاس گیا ،میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ آپ ﷺ کا معاملہ غالب ہوگا،میں نے آپ کو لوگوں کی خبر دی ،اور ان پر اپنا توشہ اور سامان پیش کیا ،لیکن انہوں نے فرمایا کہ  ہمیں ضرورت نہیں ،لیکن ہمار ی خبر کو پوشیدہ رکھو،اس کے بعد میں جس کو ملا اس کو  یہ کہہ کے واپس کردیا کہ یہ راستہ میں نے دیکھا ہے اس پر وہ نہیں ہیں" ۔ پاک ہے دو ذات جو دلوں کو بدلنے والی ہے ،وہ دن کے شروع آپ ﷺ کے خلاف جہاد کے لیے نکلا تھا اور دن کے آخر میں آپ کی حفاظت کرنے والا نکلا،اس واقعہ کو سراقہ نے  اشعار میں بیان کیا ہے جب ابو جہل نے ان کو ڈنٹا تو انہوں نے اس کو یو ں جواب دیا : اے ابوحکم!کاش کہ تو حاضر ہوتا میرے گھوڑے کے معاملہ کے وقت جب اس کی دونو ں ٹانگیں دھنس گئیں تو مان لیتا اورشک نہ کرتا کہ محمد دلیل کے ساتھ رسول ہیں ،کون ان کا مقابلہ کرسکتا ہے تو اپنی قوم کو ان سے باز رکھ،میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کا معاملہ ایک دن ظاہرہوگا اے ایمان والو!جب آپ ﷺ کے نکلنے کی خبر مکہ مکرمہ کے مضافات میں پھیل گئی ،دیہاتی اور شہر ی کو پتا چل گیا ،تو مدینہ والے باہر نکلتے تھے آپ ﷺ کے پہنچنے کا انتظار کرتے تھے ،اور آپ ﷺ کے آنے کے لیے بیتاب تھے ،ہر صبح اپنی آنکھوں اور دلوں کو تاحد نگاہ لمبا کرتے تھے ،آپ ﷺ کی تشریف آوری کا انتظارکرتے ہوئے ،جب دھوپ سخت نکلتی تو اپنے گھروں کو واپس لو ٹتے  صبح کا انتظار کرتے ہوئے ،نبوت کے تیرے سال بعد ربیع الاول  کی بارہ تاریخ کو مہاجر اور انصار اپنی عادت کے مطابق باہر نکلے آپ ﷺ کے آنے کا انتظار کررہے تھے ،جب  دھوپ تیز ہوگئی تو اپنے گھروں کو واپس لوٹے ،تھوڑی دیر نہیں گذری تھی کہ ایک نیک بخت نے اونچی آواز کے ساتھ چیخ لگائی :اے بنی قیلۃ!یہ تمہارے صاحب آگئے ،یہی ہیں وہ جن کا تم انتظار کررہے تھے ،مدینہ میں نعرہ تکبیر گونج اٹھا،اور لوگ آپ ﷺ کے استقبال کے لیے نکل پڑے ،مرد،عورتیں ،بچے اور بوڑھے سب،نبوت کے سلام کےساتھ انہوں نے آپ ﷺ کا استقبال کیا ،سکینہ اور وحی ان پر نازل ہورہی تھی ،اللہ تعالی کاارشاد ہے : ((بیشک اللہ تعالی اس کا مولا ہے ،جبریل ،نیک مؤمن اور فرشتے اس کے بعد مد د گار ہیں ))سب سے پہلے آپ ﷺنے  عامر اور عوف کے قبیلے میں مسجد قباء کی بنیاد رکھی،نبوت کے بعد یہ سب سے پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد رکھی گئی،پھر اللہ کی توفیق سے آپ ﷺ اپنے ننھیال بنی نجار میں ٹھر گئے ،پھر جہاں اونٹنی بیٹھ گئی وہیں اپنی مسجد کی بنیاد ڈالی،مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ فرمایا،کل کو آپ ﷺ کے آنے کی وجہ سے مدینہ منورہ مسلمانوں کا دارالخلیفہ  اور دارالہجرۃ بنا۔ اللہ تعالی کےلیے بہت ،پاکیزہ اور برکت والی تعریف ہے جیسے وہ پسند کرتے ہیں۔ خطبہ ثانی: اما بعد۔۔۔ اے ایمان والو!یہ آپ ﷺ کی ہجرت کی  خبر کا کچھ حصہ ہے جو آپ لوگوں نے سن لیا،یہ ایک بڑی خبرہے ،جس میں بہت ساری نصیحتیں اور عبرتیں ہیں،جن میں سے سب سے واضح آپ ﷺ کے دین ،ان کے اولیاء اور جماعت کی صنعت کا کرشمہ ہے ،ان کے دشمنوں کے مکر او  ر جھگڑے کے باوجود،بیشک  اللہ تعالی اور اس کے رسول کے دشمنوں نے بڑی سازشیں کیں ،آپ ﷺ  کے قتل کا ارادہ کیا،آپ کی رسالت کے نور کو بجھانے  اور آپ کی دعوت کو ختم کرنے کی کوشش کی،جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((اور جب کافروں لوگ مکر کررہے تھے کہ آپ کو ثابت رکھے یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو نکال دیں ،وہ بھی مکر کررہے تھے اور اللہ تعالی بھی مکر کررہا تھا،اور اللہ تعالی بہترین مکر کرنے والا ہے ))،اللہ تعالی نے ان     کے مکر کو ناکام کردیا،اور ان کے مکر کو ان پر لوٹا دیا،اللہ تعالی نے ہجرت کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے فتح اور مدد کا ذریعہ بنایا،جیسا کہ اللہ تعالی کاارشاد ہے:  ((اگر تم نے ان کی مدد نہ کی تو اللہ تعالی نے ان کی مدد کی ہے جب  کافروں نے ان کو نکالا،جس وقت وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے ،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ،تو اللہ تعالی نے ان پر سکینہ اتار دیا ،اور ان کی مدد ایسے لشکر کے ساتھ کی جس کو تم نے نہیں دیکھا،اور کافروں کے کلمے کو نیچے کردیا اور اللہ تعالی کا کلمہ ہی بلند ہے ،اور اللہ تعالی غالب اور حکمتوں والا ہے ))،تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو تکلیف اور مشقت والے گھر سے  عزت اور آرام والے گھر کی طرف نکالا،اللہ ہی کے لیے اول ،آخر ،ظاہر اور باطنی تعریف ہے ،بہت ساری پاکیزہ اور برکت والی حمد اللہ کے لیے ہے ۔ اے ایمان والو!اللہ تعالی کے دشمن مکر کی قوت،سازش کی شدت ،منصوبے کی مضبوطی جتنی بھی کوشش کریں تا کہ اللہ کے نور کو بجھائیں ،اللہ کے اولیاء اور ان کے محبوبوں کو ہلاک کریں ،تو وہ ہر گز اللہ تعالی کی مضبوط سنت کو تبدیل نہیں کرسکتے ،اور نہ ان وعدوں اور ثواب کو ختم کرسکتے ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے محبوبوں اور اولیاء کی مدد کرتے پر رکھا ہے ،اللہ تعالی ہی  اپنے کام میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ،اللہ تعالی نے لوگوں کا احاطہ کیا ہوا ہے ،اور ان کا مکر اللہ کے پاس ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ((اور تحقیق انہوں نے مکر کیا اور ان کا مکر اللہ کے پاس ہے ،اور نہیں ہے ان کا مکر کہ اس سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے ،اللہ تعالی کو وعدہ خلاف خیال مت کرو،بیشک اللہ تعالی غالب اور بدلہ لینے والا ہے ))۔ اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ،جیسا کہ اللہ تعالی کاارشاد ہے : ((اللہ تعالی نے مقرر کیا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ہی غالب ہوں گے ،بیشک اللہ تعالی طاقت ور اور غالب ہے ))اولیاء اللہ کو ہر زمانے اور شہر میں صبر کرنا چاہیے ،خاص کر مشکل وقت میں ،جس میں دین کے دشمنوں کی تکلیف سخت ہوتی ہے یعنی یہودی ،عیسائی،مشرکین،منافقین کمیونسٹ وغیرہ ،ایسے وقت میں ان کو چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف کشادگی کا انتظار کریں ،کیونکہ مکر کے طریقے جتنے بھی مضبوط ہوجائیں ،اس کے منصوبے جتنے بھی مسلسل ہوجائیں ،اس کی قوت جتنی بھی سخت ہوجائے ،پھر بھی وہ اللہ تعالی کے مکر کا مقابلہ نہیں کرسکتا ،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ((اور وہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ،اور اللہ تعالی سخت طاقت والا ہے ))ایک اورجگہ پر اللہ تعالی  کا ارشا دہے:((انہوں نے بھی ایک مکر کیا اور ہم نے بھی ایک مکر کیا حالانکہ ان کو پتا ہی نہیں ))۔ اے ایمان والو! بیشک یہ ربیع الاول کا مہینہ بڑے واقعات والا مہینہ ہے ،جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا ہے ،اکثر اہل علم کے قول کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ اسی مہینے میں ہوئی ہے ،اور اسی مہینہ  میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ہے ،اور اسی مہینہ میں آپ ﷺ کا وصال ہوکر آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوا ہے ،نیک اسلاف اور قرآن اور سنت پر مضبوطی سے عمل کرنے علماء نے اس مہینے کو کسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا ،یعنی آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ یا ہجرت پر عید یا خوشی وغیرہ ،اور نہ ہی آپ ﷺ کی مو ت اور آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہونےپر کسی قسم کے ماتم اور غم کا اہتمام کیا ہے ،بلکہ انہو ں نے اور مہینوں کی طرح اس کو بھی خاموشی سے گذار اہے ،لیکن جب اللہ اور رسو ل پر امت کا ایمان کمزور ہوگیا،اور آپ ﷺ کے طریقے اور سنت پر عمل کم ہوگیا تو چوتھی صدی ہجری میں جہالوں کی بعض جماعتوں نے عید وغیر ہ منانا شروع کردیا،آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ پر عید کے جلسے کرنے لگے ،اس میں ولیمے کرنے لگے ،مبارکباد دینے لگے ،اور وہ شرکیہ قصیدے اور اشعار پڑھنے لگے جن سے اللہ تعالی اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ،اس بدعت کے ذریعہ انہوں نے صحابہ کے طریقے کی مخالفت کی ،جو گہرے ایمان والے ،مضبوط علم والے  اور آپ ﷺ سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اے اللہ کے بندوں !بدعت اور دین میں نئی چیزوں سے بچو،کیونکہ بدعت اللہ سے دور ہی کرتی ہے ،آپ ﷺ اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے :”بیشک سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب ہے ،اور سب سے بہترین طریقہ آپ ﷺ کا طریقہ ہے “۔ بدعت چھوڑ دو اور سنت کو مضبوطی سے پکڑو۔ بہترین کام وہ ہیں جو ہدایت پر گذرے ، اور بدترین کام دین میں نئی چیزیں اور بدعت ہیں ۔ خطبة: نبأ الهجرة

المشاهدات:1764
- Aa +

خطبہ اول:

یقینا تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں  ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مد د چاہتے ہیں ،جس کو اللہ تعالی ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا،اور جس کو اللہ تعالی گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سواکوئی عبادت کےلائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں،اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔

اما بعد ۔۔۔

 اے ایمان والو!

اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور حق دین کےساتھ بھیجا ہے تا کہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کردے ،اور اللہ تعالی گواہ کافی ہے ،اللہ تعالی نےآپ ﷺ کو بہت سارے فضائل کے ساتھ خاص فرمایا ہے ،جن کےذریعہ اللہ تعالی نے پچھلے اور اگلے لوگوں پر احسان کیا ہے ،ان فضائل   اور خصوصیات کوسب سے زیادہ واضح کرنے والی چیز آپ ﷺ کی سیرت طیبہ ہے ،آپ کی سیرت طیبہ آپ کے فضل  اور سچائی کی نشانیوں  کے دلائل میں سے سب سے بڑی دلیل ہے ،سیرت طیبہ آپ کی رسالت اور نبوت کی سچائی  کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی ہے ،ابن حزم ؒ نے فرمایا ہےکہ آپ ﷺ کی سیرت میں جو بھی غور کرے گا وہ آپ کی تصدیق کا قائل ہوجائے گا،اور اس کو سیرت طیبہ یہ گواہی دے گی کہ آپ ﷺ سچے نبی ہیں ،اگر آپ ﷺ کے دوسرے معجزات نہ بھی ہوتے توسیرت ہی کافی ہوتی۔

کیسے نہ ہو؟آپ کی سیرت ،آپ کی سنت  اور آپ کی زندگی دین اسلام کےلیے عملی مطابقت ہے ،سیرت ہی کے ذریعہ سے انسان شریعت کی سمجھ  حاصل کرلیتا ہے ،اور سیر ت کے ذریعہ سے آپ ﷺ کی محبت اور ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ،آپ ﷺ اور آپ کی سیرت کا ذکر دلوں کو زندہ کرتاہے ،دلوں کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے ،مندرجہ ذیل کلام جس نے بھی کہا ہے اچھا کہا ہے:

جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو آپ کے ذکر سے ہم علاج کرتے ہیں ،اورجب ہم آپ کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں تو بیمار ہوجاتےہیں۔

علماء اور اولیاء کے ہاں سیرت طیبہ کوئی قصہ نہیں جس کو پڑھاجائے ،نہ اشعار ہیں جن کو کہاجائے ،نہ تعریفیں ہیں جن کو پرویاجائے ،بلکہ وہ تو سنت ہے جس کے ذریعہ سے عقل والے عمل کرتے ہیں ،اسی کے ساتھ باتوں ،اعمال اور آدمیوں کو تولا جائےگا،یہ بعض وہ چیزیں ہیں جن کو اسلاف نے سیرت طیبہ سے جمع کیا ہے ،اور ان کو اپنی کتابوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔

اے ایمان والو!

بیشک سیر ب طیبہ عبرتوں ،اسباق،بڑے حادثات اور عظیم خبروں سے بھری ہوئی ہے ،ان روشن مناروں ،بڑے واقعات  جنہوں نے  انسانی تاریخ بدل دی،زمین کو نور سے روشن کردیا ، ان میں سے ایک واقعہ ہجرت بھی ہے ،جو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ فرمائی تھی ،میں آپ کی خدمت میں اس عظیم واقعہ کا کچھ حصہ رکھناچاہتا ہوں۔

سیرت نگاروں نے کہا ہےکہ جب قریش کا آپ ﷺ کو تنگ کرنا انتہاء کو پہنچ گیا،قریش نے مشورے کے بعد یہ طے کرلیا کہ آپ ﷺ کو قتل کیا جائے ،جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد ہے: ((اور اس وقت کو یاد کرو جب کافروں نے چال چلی کہ آپ کو ثابت رکھے یا قتل کردیں یا نکال دیں ،وہ بھی مکر کررہے تھے اور اللہ تعالی بھی مکر کررہا تھا اللہ تعالی بہترین مکرکرنے والا ہے ))۔ آپ کے پاس جبرائیل آکر پوری بات بتادی،اور کہا:آپ یہ رات اپنے بستر پر نہ گذاریں ،اللہ تعالی آپ کو ہجرت کا حکم کررہا ہے ،تو آپ ﷺ نکلے اور اپنے ساتھ رفاقت کےلیے اس امت کےصدیق اور نبی کےبعد سب سے افضل شخص کا انتخاب کیا،توآپ ﷺ او رابوبکر رضی اللہ عنہ غار ثور میں تین راتیں چھپے رہے ،ان کےساتھ عبد اللہ بن ابی بکر بھی رات گذارتے تھے جو اس وقت نوجوان تھے ،ان سے صبح سویرے نکلتے تھے اور صبح مکہ میں قریش کے ساتھ کرتے تھے  جیسے کہ رات ادھر ہی گذاری ہو،جو بات بھی  آپ ﷺ کے بارے میں قریش سے سنتے تھے اس کو آپ ﷺ تک پہنچاتے تھے ،تین راتیں اسی طرح کرتے رہے ،قریش تمام راستوں میں بیٹھ گئے ،ہر بھاگنے کی جگہ  کی تفتیش کرنے لگے ،مکہ کے پہاڑوں  میں اپنے بندے بٹھانے لگے ،یہاں تک کہ غارثور کے قریب پہنچ گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت گھبراگئے  اور آپ ﷺ ان کو کہہ رہے تھے :”اے ابوبکر !تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کا تیسرا خدا ہے ؟“اسی بات کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:  ((اگر تم ان کی مدد نہ کرو گے تو اللہ نے ان کی مدد کی ہے جب کافروں نے ان کو نکالا ،وہ دو میں سے دوسرے تھے غار میں ،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے غم نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ))،تو اللہ تعالی نے کفار کی آنکھوں کو  اپنے نبی اور ان کے ساتھی سے  اندھا کردیا ،جب  تین راتیں گذر گئیں اور تلاش میں مشرکین کا جذبہ ٹھنڈا ہوگیا،تو عبد اللہ بن ابی اریقط آیا ،اس کےساتھ آپ ﷺ اور ابو بکر صدیق  مدینہ منورہ کی طرف چلے گئے،لیکن قریش کو ان کو واپس لانے میں ناکامی سے دھوک ہوا ،مشرکین نے ان دونوں کو زندہ یا مردہ لا نے پر انعام مقرر کیا تھا ،اس انعام کی لالچ نے بہت سارے نوجوانوں کو  ان کا پیچھا کرنے پر ابھارا تھا،انہوں نے آپ ﷺ اور آپ کےساتھی کو تلاش کرنے کےلیے بہت کوشش کی،خطرناک راستوں میں گئے ،مشقتیں برداشت کیں،ان نوجوانوں میں سے ایک سراقہ بن مالک بن جعشم بھی تھے ،وہ بھی آپ ﷺ کی تلاش میں نکلا۔

اے ایمان والو!سن لو جو سراقہ کےساتھ ہوا،وہ کہتے ہیں کہ "میں بنی مدلج میں اپنی قوم کے ساتھ مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ،اچانک ایک شخص آکر ہمارے پاس کھڑا ہوگیا،ہم بیٹھے ہوئے تھے ،تو اس نے کہا :اے سراقہ !میں نے ساحل پر ایک قافلہ دیکھا ہے میرا خیال یہ ہے کہ:وہ محمد اور ان کےساتھیوں کا ہے ،سراقہ نے کہا ہے کہ میں نےپہچان لیا واقعی وہ ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن میں نے ان سے کہاوہ نہیں ہیں ،بلکہ آپ نے فلاں اور فلاں کو دیکھا ہوگا،پھر میں تھوڑی دیر مجلس میں رہ کر ادھرسے اٹھ گیا،گھر میں جاکر باندھی سے کہ میراگھوڑا نکالو،میں نے نیزہ لیا  اور اپنے گھوڑے کو لے کر گھر کے پیچھے سے نکل گیا ،میں گھوڑے پر سوار ہو کر چل پڑا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قریب پہنچا،میرا گھوڑا لڑکڑایا  جس کی وجہ سے میں گر پڑا،پھر میں کھڑا ہو کر گھوڑے پر  دوسری دفعہ سوار ہوگیا اور گھوڑے کو ڈانٹا،میں چل پڑا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی قریب ہوگیا ،میں نے آپ ﷺ کی قراءت سن لی،آپ ﷺ ادھر ادھر توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن ابو بکر صدیق ادھر ادھر متوجہ ہورہے تھے ،جب میں ان کے بالکل قریب ہوگیا تو میرے گھوڑے کی اگلی دونوں ٹانگیں زمین میں دھنس گئیں ،یہا ں تک کہ گھٹنوں تک اندر چلی گئیں ،میں اس سے گرپڑا ،پھر میں اٹھ گیا ،گھوڑے کو ڈانٹا،وہ سیدھا کھڑا ہوگیا،اس کی دونوں ٹانگوں سے ایک دھواں نکلا جو آسمان تک چڑھ گیا،میں نے ان کو آواز دی کہ بچاؤ،وہ رک گئے ،میں گھوڑے پر سوار ہو کر ان کےپاس گیا ،میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ آپ ﷺ کا معاملہ غالب ہوگا،میں نے آپ کو لوگوں کی خبر دی ،اور ان پر اپنا توشہ اور سامان پیش کیا ،لیکن انہوں نے فرمایا کہ  ہمیں ضرورت نہیں ،لیکن ہمار ی خبر کو پوشیدہ رکھو،اس کے بعد میں جس کو ملا اس کو  یہ کہہ کے واپس کردیا کہ یہ راستہ میں نے دیکھا ہے اس پر وہ نہیں ہیں" ۔

پاک ہے دو ذات جو دلوں کو بدلنے والی ہے ،وہ دن کے شروع آپ ﷺ کے خلاف جہاد کے لیے نکلا تھا اور دن کے آخر میں آپ کی حفاظت کرنے والا نکلا،اس واقعہ کو سراقہ نے  اشعار میں بیان کیا ہے جب ابو جہل نے ان کو ڈنٹا تو انہوں نے اس کو یو ں جواب دیا :

اے ابوحکم!کاش کہ تو حاضر ہوتا میرے گھوڑے کے معاملہ کے وقت جب اس کی دونو ں ٹانگیں دھنس گئیں

تو مان لیتا اورشک نہ کرتا کہ محمد دلیل کے ساتھ رسول ہیں ،کون ان کا مقابلہ کرسکتا ہے

تو اپنی قوم کو ان سے باز رکھ،میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کا معاملہ ایک دن ظاہرہوگا

اے ایمان والو!جب آپ ﷺ کے نکلنے کی خبر مکہ مکرمہ کے مضافات میں پھیل گئی ،دیہاتی اور شہر ی کو پتا چل گیا ،تو مدینہ والے باہر نکلتے تھے آپ ﷺ کے پہنچنے کا انتظار کرتے تھے ،اور آپ ﷺ کے آنے کے لیے بیتاب تھے ،ہر صبح اپنی آنکھوں اور دلوں کو تاحد نگاہ لمبا کرتے تھے ،آپ ﷺ کی تشریف آوری کا انتظارکرتے ہوئے ،جب دھوپ سخت نکلتی تو اپنے گھروں کو واپس لو ٹتے  صبح کا انتظار کرتے ہوئے ،نبوت کے تیرے سال بعد ربیع الاول  کی بارہ تاریخ کو مہاجر اور انصار اپنی عادت کے مطابق باہر نکلے آپ ﷺ کے آنے کا انتظار کررہے تھے ،جب  دھوپ تیز ہوگئی تو اپنے گھروں کو واپس لوٹے ،تھوڑی دیر نہیں گذری تھی کہ ایک نیک بخت نے اونچی آواز کے ساتھ چیخ لگائی :اے بنی قیلۃ!یہ تمہارے صاحب آگئے ،یہی ہیں وہ جن کا تم انتظار کررہے تھے ،مدینہ میں نعرہ تکبیر گونج اٹھا،اور لوگ آپ ﷺ کے استقبال کے لیے نکل پڑے ،مرد،عورتیں ،بچے اور بوڑھے سب،نبوت کے سلام کےساتھ انہوں نے آپ ﷺ کا استقبال کیا ،سکینہ اور وحی ان پر نازل ہورہی تھی ،اللہ تعالی کاارشاد ہے : ((بیشک اللہ تعالی اس کا مولا ہے ،جبریل ،نیک مؤمن اور فرشتے اس کے بعد مد د گار ہیں ))سب سے پہلے آپ ﷺنے  عامر اور عوف کے قبیلے میں مسجد قباء کی بنیاد رکھی،نبوت کے بعد یہ سب سے پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد رکھی گئی،پھر اللہ کی توفیق سے آپ ﷺ اپنے ننھیال بنی نجار میں ٹھر گئے ،پھر جہاں اونٹنی بیٹھ گئی وہیں اپنی مسجد کی بنیاد ڈالی،مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ فرمایا،کل کو آپ ﷺ کے آنے کی وجہ سے مدینہ منورہ مسلمانوں کا دارالخلیفہ  اور دارالہجرۃ بنا۔

اللہ تعالی کےلیے بہت ،پاکیزہ اور برکت والی تعریف ہے جیسے وہ پسند کرتے ہیں۔

خطبہ ثانی:

اما بعد۔۔۔

اے ایمان والو!یہ آپ ﷺ کی ہجرت کی  خبر کا کچھ حصہ ہے جو آپ لوگوں نے سن لیا،یہ ایک بڑی خبرہے ،جس میں بہت ساری نصیحتیں اور عبرتیں ہیں،جن میں سے سب سے واضح آپ ﷺ کے دین ،ان کے اولیاء اور جماعت کی صنعت کا کرشمہ ہے ،ان کے دشمنوں کے مکر او  ر جھگڑے کے باوجود،بیشک  اللہ تعالی اور اس کے رسول کے دشمنوں نے بڑی سازشیں کیں ،آپ ﷺ  کے قتل کا ارادہ کیا،آپ کی رسالت کے نور کو بجھانے  اور آپ کی دعوت کو ختم کرنے کی کوشش کی،جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((اور جب کافروں لوگ مکر کررہے تھے کہ آپ کو ثابت رکھے یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو نکال دیں ،وہ بھی مکر کررہے تھے اور اللہ تعالی بھی مکر کررہا تھا،اور اللہ تعالی بہترین مکر کرنے والا ہے ))،اللہ تعالی نے ان     کے مکر کو ناکام کردیا،اور ان کے مکر کو ان پر لوٹا دیا،اللہ تعالی نے ہجرت کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے فتح اور مدد کا ذریعہ بنایا،جیسا کہ اللہ تعالی کاارشاد ہے:  ((اگر تم نے ان کی مدد نہ کی تو اللہ تعالی نے ان کی مدد کی ہے جب  کافروں نے ان کو نکالا،جس وقت وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے ،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ،تو اللہ تعالی نے ان پر سکینہ اتار دیا ،اور ان کی مدد ایسے لشکر کے ساتھ کی جس کو تم نے نہیں دیکھا،اور کافروں کے کلمے کو نیچے کردیا اور اللہ تعالی کا کلمہ ہی بلند ہے ،اور اللہ تعالی غالب اور حکمتوں والا ہے ))،تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو تکلیف اور مشقت والے گھر سے  عزت اور آرام والے گھر کی طرف نکالا،اللہ ہی کے لیے اول ،آخر ،ظاہر اور باطنی تعریف ہے ،بہت ساری پاکیزہ اور برکت والی حمد اللہ کے لیے ہے ۔

اے ایمان والو!اللہ تعالی کے دشمن مکر کی قوت،سازش کی شدت ،منصوبے کی مضبوطی جتنی بھی کوشش کریں تا کہ اللہ کے نور کو بجھائیں ،اللہ کے اولیاء اور ان کے محبوبوں کو ہلاک کریں ،تو وہ ہر گز اللہ تعالی کی مضبوط سنت کو تبدیل نہیں کرسکتے ،اور نہ ان وعدوں اور ثواب کو ختم کرسکتے ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے محبوبوں اور اولیاء کی مدد کرتے پر رکھا ہے ،اللہ تعالی ہی  اپنے کام میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ،اللہ تعالی نے لوگوں کا احاطہ کیا ہوا ہے ،اور ان کا مکر اللہ کے پاس ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ((اور تحقیق انہوں نے مکر کیا اور ان کا مکر اللہ کے پاس ہے ،اور نہیں ہے ان کا مکر کہ اس سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے ،اللہ تعالی کو وعدہ خلاف خیال مت کرو،بیشک اللہ تعالی غالب اور بدلہ لینے والا ہے ))۔

اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ،جیسا کہ اللہ تعالی کاارشاد ہے : ((اللہ تعالی نے مقرر کیا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ہی غالب ہوں گے ،بیشک اللہ تعالی طاقت ور اور غالب ہے ))اولیاء اللہ کو ہر زمانے اور شہر میں صبر کرنا چاہیے ،خاص کر مشکل وقت میں ،جس میں دین کے دشمنوں کی تکلیف سخت ہوتی ہے یعنی یہودی ،عیسائی،مشرکین،منافقین کمیونسٹ وغیرہ ،ایسے وقت میں ان کو چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف کشادگی کا انتظار کریں ،کیونکہ مکر کے طریقے جتنے بھی مضبوط ہوجائیں ،اس کے منصوبے جتنے بھی مسلسل ہوجائیں ،اس کی قوت جتنی بھی سخت ہوجائے ،پھر بھی وہ اللہ تعالی کے مکر کا مقابلہ نہیں کرسکتا ،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ((اور وہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ،اور اللہ تعالی سخت طاقت والا ہے ))ایک اورجگہ پر اللہ تعالی  کا ارشا دہے:((انہوں نے بھی ایک مکر کیا اور ہم نے بھی ایک مکر کیا حالانکہ ان کو پتا ہی نہیں ))۔

اے ایمان والو!

بیشک یہ ربیع الاول کا مہینہ بڑے واقعات والا مہینہ ہے ،جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا ہے ،اکثر اہل علم کے قول کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ اسی مہینے میں ہوئی ہے ،اور اسی مہینہ  میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ہے ،اور اسی مہینہ میں آپ ﷺ کا وصال ہوکر آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوا ہے ،نیک اسلاف اور قرآن اور سنت پر مضبوطی سے عمل کرنے علماء نے اس مہینے کو کسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا ،یعنی آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ یا ہجرت پر عید یا خوشی وغیرہ ،اور نہ ہی آپ ﷺ کی مو ت اور آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہونےپر کسی قسم کے ماتم اور غم کا اہتمام کیا ہے ،بلکہ انہو ں نے اور مہینوں کی طرح اس کو بھی خاموشی سے گذار اہے ،لیکن جب اللہ اور رسو ل پر امت کا ایمان کمزور ہوگیا،اور آپ ﷺ کے طریقے اور سنت پر عمل کم ہوگیا تو چوتھی صدی ہجری میں جہالوں کی بعض جماعتوں نے عید وغیر ہ منانا شروع کردیا،آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ پر عید کے جلسے کرنے لگے ،اس میں ولیمے کرنے لگے ،مبارکباد دینے لگے ،اور وہ شرکیہ قصیدے اور اشعار پڑھنے لگے جن سے اللہ تعالی اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ،اس بدعت کے ذریعہ انہوں نے صحابہ کے طریقے کی مخالفت کی ،جو گہرے ایمان والے ،مضبوط علم والے  اور آپ ﷺ سے زیادہ محبت کرنے والے تھے اے اللہ کے بندوں !بدعت اور دین میں نئی چیزوں سے بچو،کیونکہ بدعت اللہ سے دور ہی کرتی ہے ،آپ ﷺ اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے :”بیشک سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب ہے ،اور سب سے بہترین طریقہ آپ ﷺ کا طریقہ ہے “۔

بدعت چھوڑ دو اور سنت کو مضبوطی سے پکڑو۔

بہترین کام وہ ہیں جو ہدایت پر گذرے ، اور بدترین کام دین میں نئی چیزیں اور بدعت ہیں ۔

خطبة: نبأ الهجرة

الاكثر مشاهدة

1. خطبة : أهمية الدعاء ( عدد المشاهدات83528 )
3. خطبة: التقوى ( عدد المشاهدات78490 )
4. خطبة: حسن الخلق ( عدد المشاهدات72763 )
6. خطبة: بمناسبة تأخر نزول المطر ( عدد المشاهدات60758 )
7. خطبة: آفات اللسان - الغيبة ( عدد المشاهدات55136 )
9. خطبة: صلاح القلوب ( عدد المشاهدات52321 )
12. خطبة:بر الوالدين ( عدد المشاهدات49587 )
13. فما ظنكم برب العالمين ( عدد المشاهدات48318 )
14. خطبة: حق الجار ( عدد المشاهدات44926 )
15. خطبة : الإسراف والتبذير ( عدد المشاهدات44245 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف