ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جہا ں قبریں ہواس کا کیا حکم ہے؟
حكم الصلاة في المساجد التي بها قبور
ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جہا ں قبریں ہواس کا کیا حکم ہے؟
حكم الصلاة في المساجد التي بها قبور
الجواب
اما بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:
بہت سارے علماء سے اس بارے میں اجماع منقول ہے کہ قبروں پر مساجد نہ بنائی جائے، اور اس بارے میں نہی کثرت سے نصوص میں وارد ہے۔ جندب بن عبداللہؓ آپ ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں:آپ سے پہلے اقوام نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کے قبروں پر مساجد تعمیر کئے پس تم لوگ مزاروں کو مساجد نہ بناؤ ، میں اس چیز سے آپ کو منع کرتا ہوں۔(مسلم:۵۳۲)اور نبی ﷺنے ایسا کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہیں جو مزار کو سجدہ گاہ بنائے۔جیسا کہ صحیحین میں ابن عباسؓ کی روایت ہے، آپﷺنے فرمایا:یہودونصاریٰ پر اللہ کی پھٹکار ہوکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا،آپ ﷺیہ فرما کر امت کو ایسے کاموں سے ڈراتے تھے۔(بخاری: ۴۳۶ ، مسلم :۵۳۱)اور اسی طرح صحیحین (بخاری:۱۳۳۰ ، مسلم : ۵۲۹)میں حضرت عائشہؓ کی روایت میں بھی لعن آیا ہے۔
اگر قبر کے اوپر کوئی مسجد بنائی جائے تو اس مسجد کو منہدم کرنا واجب ہے اور اگر مسجد پہلے سے موجود ہو اور بعد میں اس کے اندر قبر بنائی گئی تو اس قبر کو وہاں سے ختم کرکے میت کو مسلمانوں کے قبرستان میں منتقل کیا جائے۔
اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جو قبرکے اوپر تعمیر کی گئی ہو اس میں نماز پڑھنا سے نہی تحریم کے حکم میں ہے جبکہ بعض علما ء کے نزدیک نہی کراہت کے ہے اور راجح قول نہی تحریمی ہے یہ تب ہے جب قبر پہلے سے موجود ہو اور اس کے اوپر مسجد بنائی جائے۔ اور اگر مسجد پہلے سے ہو اور بعد میں اس کے اندر کوئی قبر داخل کی جائے تو نماز پڑھنا جائز ہے لیکن اس قبر کو ختم کرنا واجب ہوگا اور اگر غالب گمان یہ ہو کہ صاحب قبر کو زمیں نے کھا لیا ہوگا اور وقت بھی زیادہ گزر گیا ہے تو پھر قبر کو زمین کے ساتھ برابر کرنا بھی کافی ہوگا۔واللہ اعلم
آپ کا بھائی
خالد المصلح
10/03/1425هـ