کیا ایک عورت باقی عورتوں کی امامت میں جہراََ قرأت کر سکتی ہے اور کیا وہ عورتوں میں اذان دی سکتی ہے ؟
صفة صلاة النساء جماعة
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
کیا ایک عورت باقی عورتوں کی امامت میں جہراََ قرأت کر سکتی ہے اور کیا وہ عورتوں میں اذان دی سکتی ہے ؟
صفة صلاة النساء جماعة
الجواب
اما بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:
اگر ایک عورت باقی عورتوں کی امامت کرے تو جن رکعتوں میں جہری قرأت کی جاتی ہے تو ان میں وہ جہری قرأت کرے گی اس لئے کہ یہی تو نماز کی صفت ہے بشرطیکہ ان کے آ س پاس غیر محرم مرد نہ ہوں اگر وہاں اجنبی مرد ہوں تو پھرجہری قرأت نہیں کرے گی یہی شافعیہ اور حنابلہ کا مذہب ہے ۔مالکیہ کے ہاں جہری قرأت نہیں کرے گی بلکہ سرّی قرأت کرے گی اس لئے کہ فتنہ کا اندیشہ ہے یہی حنفیہ کا بھی ظاہر قول ہے لیکن ان میں أصح قول پہلا والا ہے ۔واللہ أعلم۔
باقی رہی بات عورت کے اذان کے بارے میں تو اس کے بارے میں جمہور علماء جن میں حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ سب کے ہاں یہ غیر مشروع ہے اس لئے کہ اذان تو جماعت کی نماز کی طرف بلانے کے لئے مشروع کی گئی ہے جبکہ عورتیں اس کے اہل نہیں اور اس لئے بھی کہ اذان میں آواز کی بلندی طلب کی جاتی ہے اور عورت اس کے بھی اہل نہیں اور شافعیہ کے ہاں ایک قول استحباب کا ہے ۔امام نوویؒ نے مجموع شرح المہذب (۱۰۸/۳) میں کہا ہے کہ :’’اگر ہم یہ کہیں کہ وہ اذان دے تو پھر اتنی آواز میں اذان دے گی جس کو اس کی سہیلیاں سن سکیں اس پر اصحاب کا اتفاق ہے اور اس پر کتاب(ام) میں بھی صراحت موجود ہے اگر اس سے( ذرا بھی) آواز بلند کرے گی تو پھریہ حرام ہوگا جیسا کہ اس کا مردوں کے سامنے اس کا چہرہ ظاہر کرنا حرام ہے اس لئے کہ جس طرح اس کا چہرہ باعثِ فتنہ ہے اسی طرح اس کی آواز بھی باعثِ فتنہ ہے۔
آپ کا بھائی
خالد بن عبد الله المصلح
14/06/1425هـ