حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
محدثین جب کسی حدیث کو اس کے طُرق کے ساتھ تقویت کا ارادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’ لہ طریق یشد بعضھا بعضا ‘‘ اس کا کیا مطلب ہے اور کیا یہ بطورِ تصحیح کے شمار ہوتا ہے یا بطورِ تحسین کے؟
کثرتِ طرق کے ساتھ تقویت کے وقت طریقِ اساسی کا اعتبار کیسے ممکن ہے؟
اگر محدثین میں سے متقدمین کسی حدیث کے حکم میں اختلاف کریں تو اس کو صحیح قرار دیں اور بعض اس کو ضعیف قرار دیں تو اس میں سے کس کا قول لیا جائے گا ؟
اہلِ علم کے درمیان جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں کیا ان میں کوئی فرق ہے، مثلاََ وہ یہ کہیں ’’ اتفقوا علیہ، ولا خلاف فیہ ‘‘ اور یہ کہ اجماع کا نقل کرنا کب درست ہوتا ہے؟
کسی صحابی کے قول یا فعل کو دلیل بنا کر عمل کرنے کا کیا حکم ہے کیا وہ حجت بن سکتی ہے یا نہیں ؟
ان کلمات کے درمیان کیا فرق ہے : رجح ھذا القول فلان، واختارہ فلان، و ذھب الیہ فلان، وجنح الیہ فلان، ومال الیہ فلان، وانتصر لہ فلان؟
کیا ان کلمات کے درمیان کوئی فرق ہے : أدلۃ ھذا القول کذا، وحجج ھذا القول کذا؟
ان کے اس قول سے کیا مراد ہوتی ہے : قرر فلان کذا کیا یہ اس کی وضاحت کے معنی میں ہوتا ہے یا اس کے ذکر کرنے کے معنی میں؟
علماء اکثر کہتے ہیں: قال فلان کذا وتبعہ علیہ فلان اس سے کیسے پتہ چلے گا کہ اس نے فلاں کی اتباع کی ہے اور وہ اپنی طرف سے اجتھاد کے ساتھ اس تک نہیں پہنچا؟
علماء یہ بھی کہتے ہیں: قال المحققون یہ محققون کون لوگ ہوتے ہیں؟
کیا ان کلمات کے درمیان کوئی فرق ہے: انتھی با ختصار وانتھی بتصرف وانتھی باختصار وتصرف ؟
علماء یہ بھی کہتے ہیں : وقد تقرر عند المحدثین أو الاصولیین کذا ان کے اس قول ’’ تقرر‘‘ سے کیا مراد ہے؟
کیا محدثین کے ان اقوال میں کوئی فرق ہے : ھذا علی قسمین وھذا علی نوعین؟
اہلِ علم کا اس قول سے کیا مطلب ہے: ھذا الحدیث معلول کیا یہ ضعیف کے معنی میں ہوتا ہے جب وہ ایسا کہتے ہیں؟
اہلِ علم کا اس قول سے کیا مطلب ہے : فی سند ھذا فلان وھو متکلم فیہ أوفیہ مقال؟
ستة عشر مسألة في علم الحديث