کیا بازار میں کچھ کھانا اخلاقی تشخص کے منافی ہے؟ اور کیا یہ انسانی آداب میں خلل ڈالنے والے اسباب میں سے ہے؟ اور کیا ہوٹلوں میں کھانا بھی اسی قبیل میں سے ہے جبکہ آج کے دور کا عرف بدل چکا ہے؟
هل هذا من خوارم المروءة؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
کیا بازار میں کچھ کھانا اخلاقی تشخص کے منافی ہے؟ اور کیا یہ انسانی آداب میں خلل ڈالنے والے اسباب میں سے ہے؟ اور کیا ہوٹلوں میں کھانا بھی اسی قبیل میں سے ہے جبکہ آج کے دور کا عرف بدل چکا ہے؟
هل هذا من خوارم المروءة؟
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
فقہاء نے مروءۃ یعنی اخلاقی تشخص کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ ہر اس چیز کو عمل میں لانا جو بندے کو خوبصورت بنائے اور مزین کرے اور ہر اس فعل کو چھوڑ دینا جو اس کو بدنما اور معیوب بنائے مروءۃ کہلاتا ہے، ابن القیمؒ نے مدارج السالکین (۳۵۲/۲) میں تحریر کیا ہے: ’’اخلاقی تشخص کی حقیقت یہ ہے کہ گندگی اور بری خصلتوں سے اقوال، اخلاق اور اعمال میں اجتناب کیا جائے‘‘۔ پھر اس کے بعد انہوں نے بڑی ہی مناسب اور بہترین تفصیل لکھی ہے، خلاصہ کے طور پر جو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی تشخص کو اختیار کرنے اور اس سے نکل جانے کے اعتبار سے دو قسمیں بنائی جا سکتی ہیں: ایک تو وہ قسم جو زمانے، مکان اور افراد کے اعتبار سے بالکل نہیں بدلتی اور اس کا تعلق خوبصورت اخلاق کو اپنانے اور گرے ہوئے افعال کو ترک کرنے کے ساتھ ہے چاہے قول کے ساتھ ہو یا عمل کے ساتھ جیسے سخاوت کرنا اور دوسروں سے تکلیف دور کرنا۔ اور ایک قسم ہے جو زمانے، مکان اور افراد کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے اور اس کی طرف امام نووی نے اپنی کتاب منہاج میں مروءۃ کی تعریف کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے، لکھتے ہیں: ’’ایسے اخلاق کو اپنانا جو زمان و مکان کے اعتبار سے مثالی ہوں‘‘، اگر ماجرا کچھ یوں ہی ہے تو جو آپ نے بازار میں کھانے یا ہوٹلوں میں جا کر کھانے کا ذکر کیا ہے تو وہ اسی قسم کے تحت مندرج ہوتا ہے جو کہ زمانے ، مکان اور اشخاص کے بدلنے سی بدلتی رہتی ہے؛ اور فقہاء کا یہ کہنا کہ یہ فعل بھی مروءۃ کے خلاف ہے اس کے منافی نہیں ہے جو ہم نے ذکر کیا کیونکہ فقہاء نے اپنے زمانے کے اعتبار سے لکھا ہے اور کوئی شک نہیں کہ اس وقت عرف کچھ ایسا ہی تھا، واللہ اعلم
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
12/02/1425هـ