بسم الله الرحمن الرحيم
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
وہ دَینِ مؤجّل جس کو قرضدار قسطوں میں ادا کرتا ہے اس کے بار ے میں اہل علم کے کئی اقوال ہیں:
پہلا قول : یہ ہے کہ اگر قرضدار صاحبِ استطاعت ہے تو اس کے پاس موجودہ مال کے ساتھ ساتھ اس دَین کی زکوٰۃ بھی واجب ہوگی ، یہ شوافع اور ایک قول کے مطابق امام احمد کا بھی مذہب ہے ، اور یہی اسحاق اور ابوعبید کا بھی قول ہے ۔ اور یہ قول عمر بن خطاب ،عثمان بن عفان ، ابن عمر اور جابر رضی اللہ عنھم اجمعین سے منقول ہے [1]۔
دوسرا قول : یہ ہے کہ اگر قرضدار صاحبِ استطاعت ہو تو اس کے پاس موجودہ مال کے ساتھ ساتھ اس دَین کی زکوٰۃ بھی واجب ہوگی ، اور اس کے نکالنے سے لے کر اس کے قبضہ تک اسے تاخیر کا اختیار ہے ، یہ احناف [2] اور امام احمد کا مذہب ہے اور یہی سفیان کا بھی قول ہے ۔
تیسرا قول : یہ ہے کہ قبضہ کرنے کے بعد صرف ایک مرتبہ زکوٰۃ واجب ہے ، چاہے قرضدار مالدار ہو یا تنگدست ، یہ امام مالک [3] کا قول ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی قول ہے ۔ اور یہی حسن اور عمر بن عبدالعزیز کا بھی قول ہے [4]۔
چوتھا قول : یہ ہے کہ دَینِ مؤجّل میں یکسر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، یہ امام احمد کا قول ہے اور اسی کو شیخ الاسلام امام بن تیمیہ نے اختیار کیا ہے ، اور یہ امام شافعی کا قولِ قدیم ہے [5] ، اور یہی بعض شوافع [6] اور ظاہریہ میں سے ابن حزم کا بھی قول ہے ۔
بیہقی اپنے سنن {۴/۱۵۰} میں فرماتے ہیں: ابن منذر نے اس قول کو ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما اور عکرمہ اور عطا رحمہما اللہ سے نقل کیا ہے ۔
اور اس مسئلہ میں زیرِ غور بات یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ دراصل یہ ہے کہ کیا دَین کیا وہ مال ہے جس میں بڑھوتری ہوتی ہے یا نہیں [7]؟
اور کیا وہ مالِ حاضر کی طرح ہے یا نہیں [8]؟
جو حضرات اس میں زکوٰۃ کے وجوب کے قائل ہیں تو انہوں نے اموال میں زکوٰۃ کے عمومی روایات کو دیکھ کر اس پر زکوٰۃ کا حکم لگایا ہے اور وہ یہی کہتے ہیں کہ چونکہ دَین بھی ایک قسم کا مال ہے اس لئے اس میں زکوٰۃ واجب ہے ۔
اور ان کا استدلال بعض صحابہ کے آثار سے بھی ہے جن میں دَین پر زکوٰۃ کا وجوب وارد ہوا ہے ۔
لیکن ان دونوں اقوال میں کوئی مضبوط حجت نہیں ہے اس لئے کہ اموال میں وجوبِ زکوٰۃ کے عمومی دلائل ان اموال کے ساتھ خاص ہیں جن میں زکوٰۃ کے وجوب میں صراحتا نص وارد ہوئی ہے ، جبکہ مالِ دَین میں وجوبِ زکوٰۃ کی کوئی صراحتا نص موجو د نہیں ہے ، امام شافعی کا قولِ قدیم یہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں: دَین میں زکوٰۃ کے بارے میں مجھے کسی بھی صراحتا صحیح نص کا علم نہیں ہے جس کو دلیل بنا کر ہم اس میں زکوٰۃ لیں یا نہ لیں ، لہٰذا -واللہ أعلم- میری رائے یہی ہے کہ اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے [9]۔
باقی اس کے بارے میں بعض صحابہ سے جو منقول ہے تو اس کے مقابلہ میں ان جیسے تمام صحابہ ہیں لہٰذا ان کے بعض کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے ان کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے ۔
باقی جن حضرات کا یہ کہنا ہے کہ صرف ایک سال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی تو یہ ایک قولِ غریب ہے ، اس کے بارے میں کتاب الاموال {ص:۴۴۰} میں ابو عبید فرماتے ہیں: صرف ایک سال کی زکوٰۃ لینے کے بارے میں ہمیں کوئی سبب معلوم نہیں ۔
اور ابن عبدالبر نے اس کے بارے میں اپنی کتاب استذکار {۳/۱۶۳} میں لکھا ہے: کہ عقل کے اعتبار سے اس مذہب کا کوئی خاص حیثیت نہیں ہے اس لئے کہ اس کے بالمقابل اقوال اس سے زیادہ قوی ہیں ، اور جس پر دین کے علاوہ کوئی اور قرضہ وغیرہ ہو تو اگر وہ اس کے لینے پر قادر ہو تو پھر یہ ودیعت کی طرح ہے وہ اس کی ہر سال زکوٰۃ ادا کرے گا ، اس لئے کہ قدرت رکھنے کے باوجود اس شخص کا اس کو چھوڑنا ایسا ہے جیسا وہ اپنے گھر میں چھوڑتا ہے ، اور اگر وہ اس کے لینے پر قادر نہ ہو تو اس کے بارے میں علماء کے اقوال پیچھے گزر چکے ہیں ، اور احتیاط اسی میں ہے اور یہی أولیٰ ہے ، اللہ ہم سب کو سیدھی راہ کی توفیق دے وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہی ہمارا بہترین کارساز ہے۔
اور بدایۃ المجتھد {۱/۱۹۹} میں ابن رشد فرماتے ہیں: کہ جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس میں صرف ایک سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی اگرچہ اس پر کئی سال بیت جائیں تو اس وقت مجھے اس کے بارے میں کوئی مستند روایت کا علم نہیں ہے ۔
لہٰذا اس بارے میں مجھے جو راجح قول لگ رہا ہے وہ یہ ہے کہ اس دَین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، واللہ تعالیٰ أعلم
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
10/09/1424هـ