جناب مآب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! بعض عالمی ہسپتالیں کبھی کبھی اپنے ہاسپٹل کے امتیازی علامت کے لئے اپنے سفید شرٹ پرسونے کا ایک ٹکڑا رکھتے ہیں لہٰذا اس کے پہننے کا کیا حکم ہے ؟
الذهب اليسير في لباس الرجل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
جناب مآب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! بعض عالمی ہسپتالیں کبھی کبھی اپنے ہاسپٹل کے امتیازی علامت کے لئے اپنے سفید شرٹ پرسونے کا ایک ٹکڑا رکھتے ہیں لہٰذا اس کے پہننے کا کیا حکم ہے ؟
الذهب اليسير في لباس الرجل
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مردوں کے لئے خالص سونا پہننے کی حرمت پر اہل علم کا اتفاق ہے ، چاہے وہ مفرد ہو یا کسی کے تابع ہو، اور یہ ان نصوص کی وجہ سے ہے جن میں مردوں کے لئے سونا پہننے کی ممانعت ہے ، اور اسی میں امام بخاری [۵۸۶۶] اور امام مسلم [۲۰۹۱] کی حضرت ابن عمرؓ سے روایت کردہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺنے سونے کی انگوٹھی پہن لی تو ان کے دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں اللہ کے رسول ﷺنے جب ان کو سونے کی انگوٹھیاں پہنتے ہوئے دیکھا تو اپنی انگوٹھی کو پھینک کر ارشاد فرمایا: "میں اب اس کو کبھی بھی نہیں پہنوں گا"۔
اسی طرح امام احمد [۹۳۷] و ابوداؤد [۴۰۵۷] اور نسائی [۵۱۴۴] و ابن ماجہ [۳۵۹۵] نے حضرت علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺنے اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا لیا اور پھر ان دونوں کو بلند کرکے ارشاد فرمایا: "یہ دونوں میری امت کے مردوں کے لئے حرام اورعورتوں کے لئے حلال ہیں"۔
مرد کا تھوڑا بہت سونا پہنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ، جمہور علماء میں سے مالکیہ شوافع اور حنابلہ اس کے حرمت کے قائل ہیں اور ان کے مستدلات وہ تمام عمومی احادیث ہیں جن میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، اور اہل علم کی ایک بہت بڑی جماعت مردوں کے لئے اس کے تھوڑے بہت استعمال کے جواز کے قائل ہیں جیسا کہ اگر کوئی اپنے کپڑو ں میں سونے کا بٹن لگائے یا گھڑی میں سونے کی سوئیاں وغیرہ وغیرہ، یہ احناف کا مذہب ہے، اور یہ امام احمد کا بھی ایک قول ہے جس کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے اور ان کا استدلال امام احمد [۱۶۳۹۱] و ابوداؤد [۴۲۳۹] اور نسائی [۵۱۴۹] کی ذکر کردہ حضرت معاویہ ؓ کی حدیث سے ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے سونے کے استعمال سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو ۔
تہذیب السنن [۱۱/۲۰۲] میں ابن القیم فرماتے ہیں: ’’میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ معاویہؓ کی حدیث میں سونے کی مطلقا اباحت فرد کے علاوہ اس کے تابع میں ہے جیسا کپڑوں میں گلکاری وغیرہ ۔
اور اس کی تائید امام مسلم کی اپنی صحیح [۲۰۶۹] میں حضرت سوید بن غفلہ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک مرتبہ جابیہ نامی جگہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ کے رسولﷺنے ریشم کے پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ دو، تین یا چار انگلیوں کے بقدر ہو ۔
پس اللہ کے رسولﷺنے ریشم کے معمولی استعمال کو مستثنی قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ خالص ریشم حرام ہے ، طبرانی کی تخریج کردہ حدیث میں ابن عباسؓ فرماتے ہیں: اللہ کے رسولﷺنے خالص ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے پہننے سے منع فرمایا ہے اگر کپڑوں میں معمولی بیل بوٹے ریشم کے ہوں یا اس کا تانا ریشم کا ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
باقی سونا اور ریشم حکم کے اعتبار سے ہم معنی ہیں اس لئے جو رخصت ریشم کے بارے میں وارد ہوئی ہے وہ سونے کے بارے میں بھی ہے ۔ واللہ أعلم
آپ کا بھائی/
أ.د.خالد المصلح
19/ 10/ 1428هـ