حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آ پ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
ایک ایمان والے پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ حسنِ ظن رکھے اور اس سے خیر کی امید رکھ کر اس کی طرف سے آنے والی خوشحالی کا انتظار کرے اور ان لوگوں میں سے نہ بنے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے پر اللہ کی عبادت کرتے ہیں﴾ {الحج: ۱۱} اس آیت مبارکہ میں اسی کی خبر دی جارہی ہے کہ وہ خوشحالی اور وسعت کی حالت میں تو خوب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے لیکن جب اسے کوئی مصیبت و پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ ایڑیوں کے بل پھر کر اپنے رب کے احسانات و انعامات کا انکار کرنے لگ جاتا ہے ۔
اس لئے محترم بھائی آپ کو جو پریشانی لاحق ہوئی ہے اس پر صبر کرکے اپنے دین پر بھروسہ رکھیں ، اور یہ باتیں آپ کی بالکل شایان شان نہیں ہیں کہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ دین اسلام ہر پریشانی کا حل ہے ، کیا آپ کو اس بات میں شک ہے کہ اسلام ہر پریشانی کا حل نہیں ہے؟ اگر آپ کو پناہ لینے کے لئے گھر نہ ملے پھر بھی اپنے دین میں شک نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ تمہارے پروردگار کی عطا ہے، کیا اللہ کے رسول ﷺاپنے گھر سے ہجرت کرکے نہیں نکلے؟ اور کیا صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے گھروں کو نہیں چھوڑا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دین میں کوئی نقص تھا یا یہ بات درست نہیں ہے کہ یہ لوگوں کے لئے ان کے دین و دنیا میں میں بطور حل اور اصلاح کے ہے؟
اپنے رب پر بھروسہ رکھ کر اس کی طرف رجوع کریں اور اپنی زبان کو لگام دیں کیونکہ کتنے ایسے کلمات ہیں جو اپنے کہنے والے سے کہتے ہیں کہ مجھے چھوڑ دو اسلئے کہ بعض اوقات منہ سے اللہ کی ناراضگی کا ایسا بول نکل جاتا ہے جسے انسان کوئی توجہ نہیں دیتا لیکن اس بول کی وجہ سے جہنم میں اتنا دور چلا جاتا ہے جتنی مشرق ومغرب کے درمیان دوری ہے۔
باقی رہا آپ کا سود پر قرضہ لینے کا سوال تو اگر آپ کو کوئی قرضہ دینے والا نہیں مل رہا اور آپ کے پاس کوئی جائے پناہ بھی نہیں ہے جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں تو پھر اتنا قرضہ لیں جس سے آپ کی ضرورت پوری ہو۔
اللہ تعالیٰ آپکا معاملہ آسان فرمائے اور آپ کی حالت بہتر کرے۔