ولایت ِنکاح کا اصل مقصود بیٹی یا بہن وغیرہ کا اختیارِکفو میں اعانت کرنا ہے(یعنی اس کے لئے ایسا لڑکا منتخب کرنا جو دین ،اخلاق اور امانت کے اعتبار سے اس کیلئے مناسب ہو) تو جب بھی مذکورہ صفات کا شخص رشتہ بھیجے تو ولی کے اوپر یہ واجب ہے کہ اپنی بہن یا بیٹی کے لئے اس آدمی کا پیغامِ نکاح رد نہ کرے کیونکہ آقائے دو جہانﷺ کا فرمان ہے کہ’’ جب کوئی ایسا شخص تمہارے پاس اپنا رشتہ بھیجے جس کے دین و اخلاق سے تم راضی ہو تو اس کا نکاح کرادواگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا ‘‘(رواہ الترمذی وغیرہ من حدیث ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ) اسی طرح اک اور حدیث میں بھی آیا ہے جو ابو حاتم مزنی سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ ’’جب کوئی ایسا شخص تمہارے پاس اپنا رشتہ بھیجے جس کے دین واخلاق سے تم راضی ہو تو اس کا نکاح کرادواگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا ‘‘۔
اب ان ساری باتوں سے یہ واضح ہوگیا کہ جب چھوٹی لڑکی کے لئے مناسب لڑکا مل جائے تو بڑی لڑکی (جو غیر شادی شدہ ہے) اس کی خاطرچھوٹی لڑکی کا رشتہ مؤخرکرنا اوراس کے نام رشتہ کا پیغام بھیجنے والے کوٹھکرانا آپ ﷺ کے تعلیمات و اوامر کے بھی خلاف ہے ، امانت میں ظلم و خیانت بھی ہے اور یہ اس مقتضائے نصیحت سے خروج بھی ہے جو ولایت کا مقصد ہے۔
لہٰذا ولی کے اوپر واجب ہے کہ جب لڑکی سنِ بلوغ کو پہنچے اور اس کے مناسب لڑکا مل جائے تو اس کو بیاہنے میں جلدی کرے، اوربڑی کے لئے چھوٹی کو مؤخر نہ کرے کیونکہ اس تأثر اور عدمِ رضا میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ولی کو چاہئے کہ وہ بڑی کو یہ بتائے کہ اس کی چھوٹی بہن شادی میں اس سے مقدم ہوگئی تو یہ تقدیر کا لکھا اور اسکے حق میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک مقدار رکھی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مؤخر رکھا تو اس میں اس کے لئے بھلائی ہوگی، لہٰذا دل سے قدرت کے فیصلوں پر راضی رہو، اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل و کرم مانگتی رہا کرو،اور ولی اسے یہ بھی تلقین کیا کرے کہ رشتوں میں تقدم و تأخر کمالِ صفات کا معیار نہیں ہے کیونکہ ایسی بہت سی بلند و عالی صفات والیوں کے رشتے تأخیر سے ہوتے ہیں۔ واللہ الموفق۔
عضو الاِفتاء بالقصیم
أ۔د۔خالد بن عبداللہ المصلح
۳؍۳؍۱۴۳۶ ھ