جنسی اعتبار سے مرد کا عورت اور عورت کا مرد کی طرف منتقل ہونے کی دو حالتیں ہیں جن کے احکام مختلف ہیں:
پہلی حالت: جب یہ تبدیلی جنسِ اصلی کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے ہو، چاہے وہ جنسِ اصلی مذکر ہو یا مؤنث ، اور چاہے اس پر مردانہ صفات ظاہر ہوں یا زنانہ صفات ،بہرحال ان ظاہری صفات کو زائل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس پر جنسِ اصلی کے احکام ہی جاری ہونگے، مثلاََ جب جنسِ اصلی مؤنث ہو اور اس پر مردانہ صفات کا ظہور ہوں تو ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ بہتر اسباب سے زائل کرنا جائز ہے، اور اس صورت میں آدمی اپنے جنسِ اصلی ہی کی طرف لوٹے گا یعنی زنانہ پن کی طرف جیسا کہ مذکورہ بالا مثال میں ہے، اور اس مرد کے لئے عورت کے تمام احکام ثابت ہونگے، لہٰذا اس صورت میں ایک مرد کے لئے اس سے شادی کرنا جائز ہے۔
دوسری حالت: جب یہ بدلاؤ جنسِ اصلی کے ان اوصاف کو چھپانے کے لئے ہوں جن پر اللہ تعالیٰ نے انسان کوپیدا کیا ہے، اور جنسِ آخر کے ان اوصاف کو ظاہر کرنے کے لئے ہوں جو تبدیلی کی وجہ سے آئے ہوں، تو پھر یہ گناہِ کبیرہ میں سے ہے، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا ہے لہٰذا موجبِ سزا ہے۔
اور یہ ڈرامہ جو زنانہ اوصاف کوظاہر کرنے اور مردانہ اوصاف کو چھپانے یا اس کی الٹ صورت سے حاصل ہوا ہے کسی بھی شخص کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا، لہٰذا مرد وعورت دونوں کے لئے انکے اصل جنس کے احکام ہی باقی رہیں گے، پس اگر کوئی مرد آپریشن وغیرہ سے عورت میں منتقل ہو جائے تو اس کے لئے مردانہ احکام ہی باقی رہیں گے اور کسی بھی دوسرے مرد کے لئے اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ الھادی الی سواء السبیل
آپ کا بھائی
أ ۔د خالد المصلح