میں تکبیراتِ عید ، ان کی مشروعیت اورخاص طور پر ان کا مسجد میں ادا کرنے اور فرض نمازوں کے بعد ادا کرنے کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ، اورحدیث ام عطیہ ؓپر وضاحت چاہتا ہوں ۔ (شکریہ تكبيرات العيد
میں تکبیراتِ عید ، ان کی مشروعیت اورخاص طور پر ان کا مسجد میں ادا کرنے اور فرض نمازوں کے بعد ادا کرنے کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ، اورحدیث ام عطیہ ؓپر وضاحت چاہتا ہوں ۔ (شکریہ تكبيرات العيد
الجواب
ثار ِ صحابہ رضی اللہ عنہھم اجمعین سے تکبیراتِ عید کا نمازوں کے بعد جہراََ ادا کرنا مسنون ہے ، لیکن مناسب یہ ہے کہ کہ جہراََ ادا نہ کی جائیں کیونکہ اس طرح یہ دوسروں کے لئے تکلیف اور تنگی کا باعث ہے، مگر اس طرح جہراََ ادا کرنے سے اس دور میں دوسرے مسلمانوں کے درمیان اظہارِ تکبیر سے تکبیرات کی اشاعت بھی ہو جاتی ہے خاص طور پر ان دنوں میں جو کہ ذکر اذکار کے دن ہیں ۔
اور جوحدیث آ پ نے ام عطیہ والی ذکر کی ہے وہ صحیح مسلم میں عاصم کے واسطہ سے مذکور ہے جس کو وہ حضرت حفصہؓ سے نقل فرماتے ہیں اور وہ ام عطیہ ؓسے نقل فرماتی ہیں کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا کہ ہمیں عید کے دن نکلنے کاحکم دیا جاتا تھا۔
اور فرمایا کہ’’ اللہ کے نبی علیہ السلام نے ہمیں بڑی عمر کی اور جوان عورتوں کو حکم فرمایا کہ ہم عیدین میں نمازِ عید کے لئے نکلیں اور حائضہ عورتوں کو مسلمانوں کی نماز گاہ سے الگ رہنے کا حکم فرمایا ‘‘۔
اور ایک دوسری روایت میں وارد ہے کہ ’’ ہمیں یعنی جوان عورتو ں کو حکم دیا جاتا عیدین میں نکلنے کا اور فرمایا کہ حائضہ عورتیں بھی نکلتی تھیں اور سب لوگوں سے پیچھے کھڑی ہوجاتی تھیں اور لوگوں کے ساتھ تکبیرات پڑھتی تھیں ‘‘۔
یہ دلیل ہے اور یہی روایت صحیح مسلم میں بھی مذکور ہے، اور یہ بات دلالت کرتی ہے اس دن (عید ) میں مساجد اور اور وصلہ گاہوں میں تکبیرات کا ادا کرنا عید کے دن کی ایک علامت اور طریقہ ہے ۔
اور آواز کا بلند کرنا یعنی تکبیرات کا جہراََ ادا کرنا اس کی مشروعیت پر حضرت عمرؓ کا فعل مذکور ہے ، امام بخاریؒ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ منی میں اپنے قبہ میں تکبیر کہتے اور مسجد والے تکبیر کہتے اور بازار والے تکبیر کہتے یہاں تک کہ منی تکبیر سے گونج اٹھتا۔