جو آدمی شوّال یا ذیقعد میں عمرہ ادا کرے جبکہ اس نے حج کی ادائیگی کی نیّت بھی کی ہو کیا ایسے شخص پر ہدی واجب ہوگی یا روزے یا پھر کوئی اور کفّارہ؟
من اعتمر في أشهر الحج فهل يغنيه ذلك عن التمتع؟
جو آدمی شوّال یا ذیقعد میں عمرہ ادا کرے جبکہ اس نے حج کی ادائیگی کی نیّت بھی کی ہو کیا ایسے شخص پر ہدی واجب ہوگی یا روزے یا پھر کوئی اور کفّارہ؟
من اعتمر في أشهر الحج فهل يغنيه ذلك عن التمتع؟
الجواب
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
بعدالحمد والصّلوۃ:
اہل علم کا اجماع ہے کہ جو شخص حج کے مہینوں میں میقات سے عمرہ کا احرام باندھے اور اپنے عمرہ سے فارغ ہوکروہیں اقامت اختیار کرلے اور پھر اسی سال حج کرے تو وہ متمتع ہے اور اس پر ہدی واجب ہوگی اگراس کوہدی نہ ملی تو اس کے ذمہ تین دِن کے روزے حج کے ایّام میں اور ساتھ واپس جانے کے بعد واجب ہونگے․
اختلاف اس صورت میں ہے کہ اگر حج کے مہینوں میں کوئی عمرہ کرے پھر مسافتِ قصر کے بقدر سفر کرے توحنابلہ کے نزدیک اس سفر کی وجہ سے اس کا تمتع منقطع ہوجائے گا جبکہ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ تمتع تو منقطع نہیں ہوگا بلکہ تمتع تب منقطع ہوگا جب وہ میقات کی طرف واپس لوٹ جائے گا جبکہ احناف فرماتے ہیں کہ اگراپنے شہر کی طرف لوٹ جائے تو تمتع منقطع ہوگا وگرنہ نہیں اورمالکیہ کے نزدیک اگر وہ اپنے شہر کی طرف روانہ ہوا یااتنی مسافت پر سفر کیا جتنی اس کے شہر کی ہے تو تمتع منقطع ہوجائے گا․․․․․․اور ایک قول یہ بھی ہے کہ سفر پرآنے جانے سے تمتع پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ وہ متمتع ہی رہے گا جبکہ اس نے عمرہ کر لیاہے اور پھراسی سال اس نے حج بھی کیا ہو تو وہ متمتع ہی ہے یہ قول حسن کا ہے اوراسی قول کوابنِ منذر اور ابنِ حزم ظاہریؒ نے اختیار کیا ہے․․․
راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے شہر لوٹ آئے گا تو اس کا تمتع منقطع ہوجائے گا کیونکہ صحا بہ وتابعین رضی اللہ عنہم کی اصطلاح میں تمتع اشھرِحج میں ایک ہی سفر کیساتھ حج اور عمرہ کرنے کو کہتے ہیں اور جوشخص واپس اپنے شہر لوٹ آئے تو تمتع کا معنی اس کے حق میں زائل ہوجاتا ہے․․․واللہ تعالی اعلم
خالد المصلح
24/ 11/ 1424هـ