اس عورت کے بارے میں کیا حکم ہے جس کو خون آئے اور وہ اسے حیض کا خون سمجھتے ہوئے نماز چھوڑدے ؟
نزل منها دم فظنته حيضاً وتركت الصلاة
اس عورت کے بارے میں کیا حکم ہے جس کو خون آئے اور وہ اسے حیض کا خون سمجھتے ہوئے نماز چھوڑدے ؟
نزل منها دم فظنته حيضاً وتركت الصلاة
الجواب
حامدا و مصلیا
امابعد۔
جتنی نمازیں وہ چھوڑ چکی ہے ان کی قضا ء کرنا اس کے ذمے لازم نہیں ہے کیو نکہ اس نے اصل مسئلہ سمجھتے ہوئے ان نمازوں کو چھوڑا تھا اور یہ بہت اہم فائدہ ہے عورتوں کے لئے کہ اصل مسئلہ جس میں عموماََ عورتوں کو خون آتا ہے وہ حیض ہی ہوتا ہے ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :(ترجمہ) ’’ یہ لوگ تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ وہ اذیت ہے ‘‘ اور اذیت وہی خون ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آیت میں ارشاد فرمایا۔ پس اصل میں جو خون عورت کو آتا ہے وہ حیض ہی ہے ۔ تو علماء کے قول کے مطابق اس پر قضا ء لازم نہیں آتی ۔
میں اس مسئلہ میں وہ روایت ذکر کرنا چاہوں گا جو صحیح کی روایت ہے کہ فاطمہ بنت جیشؓ نے رسو ل اللہ ﷺسے سوال کیا :’’میں ایک ایسی عورت ہوں کہ جب مجھے حیض آتا ہے تو پھر میں پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز چھوڑدوں؟ تو آپﷺنے جواب میں ارشاد فرمایا:نہیں بلکہ وہ ایک رگ ہے ‘‘ تو اس مسئلہ میں بعض روایات کے مطابق وہ نماز چھوڑدیتی تھی، جبکہ بعض روایات میں ہے کہ اس نے ایک لمبے عرصے تک نماز چھوڑے رکھی ، اور بعض روایات میں ہے کہ وہ سات سال سے مستحاضہ رہی۔ پس ان تمام صورتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی ان صورتوں میں نماز چھوڑ دے تو اس پر قضاء لازم نہیں کیونکہ وہ ان کو اپنے اوپر واجب ہی نہیں سمجھتی اور دوسری بات اس نے ان کو اصل پر قیاس کرتے ہوئے کہ یہی خون ہے اور اس سے نماز پڑھنا منع ہے ۔ اور اگر وہ چاہے کہ احتیاط کرے اور قضاء کرے تو یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے ۔ـ
مگر شریعت کے حکم کے مطابق جو عورت خون کو حیض سمجھتے ہوئے نماز چھوڑدے کیا اس پر قضاء لازم آئے گی ؟ جواب یہ ہے کہ علماء کرام کے راجح قول کے مطابق اس پر قضاء واجب نہیں ۔ واللہ أعلم بالصواب۔
( بخاری ۲۲۸ و مسلم ۷۷۹)