کیا طہارت کے ہوتے ہوئے قلیل نجاست معاف ہے ؟ اور قلیل نجاست کا ضابطہ کیا ہے ؟
يسير النجاسة في الطهارة.
کیا طہارت کے ہوتے ہوئے قلیل نجاست معاف ہے ؟ اور قلیل نجاست کا ضابطہ کیا ہے ؟
يسير النجاسة في الطهارة.
الجواب
حامداَ ومصلیاَ۔۔
اما بعد۔
امام ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک تمام قلیل نجاسات معاف ہیں اور اسی قول کو شیخ ابن عثیمینؒ نے کافی مقامات پر ذکر کیاہے اور اسی کو ترجیح دی ہے، اور اسی قول پر ماضی اور حال میں عمل ہے ، اور شاید تم یہ بات بھی پوچھو کہ آج کے دور کے برخلاف پہلے وقتوں میں نجاسات سے بچنا کافی دشوار اور مشکل تھا، مگر ممکن حد تک بچنے اور احتراز کرنے کے مسائل لوگوں کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں جیسا کہ ایک مریض کا حال ہوتا ہے کہ وہ مکمل طور پر حرکت کرنے اور دوسرے حالات میں ایک صحیح انسان جیسا نہیں ہوتا اور اس حکم سے مراد جس کو شیخ الاسلام ؒ اور ابن عثیمینؒ نے ذکر فرمایا اور اس کو ماضی اور حال کے لحاظ سے معمول بہ اور ترجیح دی ہے ، یہ مسئلہ اپنی اصل کے اعتبار سے مختلف فیہ ہے ۔ جمہور علماء نے نجاست کو معاف نہیں بتایا چاہے وہ قلیل ہو یا کثیر ہو مگر وہ جس کا علماء کرام چند گنے چنے اور محدود حالات میں استثناء کیا ہے اور اس سب کے علاوہ معاف نہیں ہے ۔
جبکہ صحیح قول وہی ہے جس کو ابن عثیمین ؒ نے ذکر فرمایا ہے اور اسی کو شیخ الاسلام ؒ نے اختیار کیا ہے کہ نجاست اگر قلیل ہو تو معاف ہے ، جبکہ نجاستِ یسیر کا ضابطہ قلیل اور کم مقدار ہے ۔ اور اس میں راجح وہی ہوگا جو لوگوں کے نزدیک عرف ہے ۔ اور اس میں کوئی حد متعین نہیں ہے کہ یہ کہا جاسکے کہ یہ مقدار کم اور اور یہ زیادہ ہے بلکہ اس میں راجح وہی ہے جس پر لوگوں کا معمول ہے اور جو عرف ہے ۔ کیونکہ جس چیز کی شریعت میں کوئی حد متعین نہ کی گئی ہو اس میں راجح قول اور عرف کو دیکھا جاتا ہے جیسا کہ ہمارے شیخ ناظم نے اپنے منظوم میں کہا ہے ۔
ہر وہ چیز جو اس طرح پیش آئے کہ شریعت میں اس سے بچنے کی کوئی حد مقرر نہ ہو تو عرف اس کی حد مقرر کرتاہے ۔ لہٰذا ان سب میں راجح قول جو حد کو مقرر کرے عرف ہے ، پس جس کو لوگ کم اور یسیر جانے وہ معاف ہے اور جس کو قلیل نہ سمجھیں وہ معاف نہیں ہے ، مگر ان سب کے باوجود اگر کسی انسان کے لئے ممکن ہو کہ وہ بچ سکے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ احتیاط اسی میں ہے کہ قلیل اور کثیر مقدار سے بچے جب تک کہ اس میں وسوسہ کا اندیشہ نہ پیدا ہو۔