حیض کو جلدی لانے کے لئے دوائی کھانا اس عورت کے لئے جس نے حج کی نیت کی ہو ۔یہاں تک کہ عرفہ کا دن آجائے اور وہ طہر حاصل کر لے
ما حكم استعمال دواء لتعجيل الدورة لمن عندها نية الحج، حتى يأتي يوم عرفة وقد طهرت؟
حیض کو جلدی لانے کے لئے دوائی کھانا اس عورت کے لئے جس نے حج کی نیت کی ہو ۔یہاں تک کہ عرفہ کا دن آجائے اور وہ طہر حاصل کر لے
ما حكم استعمال دواء لتعجيل الدورة لمن عندها نية الحج، حتى يأتي يوم عرفة وقد طهرت؟
الجواب
امابعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب میں کہتے ہیں:
میں اس کو جلد حیض لانے کا مشورہ نہیں دے رہاکیونکہ اگراس نے انزال حیض کردیا تو حیض کا وقت بڑھ جائے گا لیکن اگراس کو تاخیر پر قدرت ہے تو ایک شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس کوکوئی نقصان نہ ہو اور ا س معاملہ میں کیسی خاص ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق استعمال کرنا چاہئے ۔ بعض گولیوں کا عورتوں پر اثر پڑتاہے ۔ اور بعض گولیا ں تو کلی طور پر منع بھی کی جاتی ہیں، وہ منع تو نہیں کی جاتی لیکن اس سے کچھ نہ کچھ نکل ہی جاتاہے جو عبادت کو خراب کردیتاہے اور اس کوحرج میں ڈال دیتی ہے اور اس کو شک ہو تا ہے کہ میں پاک ہوں کہ ناپاک ہوں اورکیا میں حائضہ ہوں یا نہیں ہوں تو ایسی حالت میں ضرور ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہئے،یہاں تک کہ وہ پورا کورس لے اور ا سکو کوئی نقصان نہ پہنچے اگراس کو کوئی نقصان پہنچے یا وہ عادتاََ کوئی بیماری ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ گولیان چھوڑدے، اگرحیض اترگیاتو اللہ شکر ، حضرت عائشہ ؓ نبی ﷺکی زوجہ محترمہ ہیں انہوں نے حج اداکیااور ان کو حیض آیا مقامِ سرف پر(یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے )اور وہ رورہی تھی کہ آپﷺان کے پاس آئے تو آپ ﷺنے فرمایا، کیا ہواہے تو کہنے لگی کہ مجھے حیض آیاہے تو آپﷺنے ارشاد فرمایا:یہ ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں یعنی عورتوں کے ساتھ جوڑی ہے ۔ یعنی صرف آپ کو یہ نہیں آیا اوریہ مصیبت کو ہلکا کرتاہے اور فرمایا ’’وہ سب کرو جو حاجی کرتے ہیں بس صرف بیت اللہ کا طواف نہ کرو‘‘۔
تو وہ صرف طواف سے منع کی گئی تھی ، باقی سار ے اعمال اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کرے ، عرفہ میں ٹھہرنا ، مزدلفہ میں رات گزارنا، رمی جمارکرنااور منی میں رات گزارنااور سب اعمال کرے گی سوائے طواف کے اور سعی کے کیونکہ وہ طواف کے تابع ہے ۔تو اس کو موخر کیا جائے گا یہاں تک کہ طہار ت حاصل ہوجائے اور طواف کرلے۔
بعض عورتیں وھم کرتی ہیں اور جب انکو حیض آیا ہوتا ہے تو وہ میقات سے احرام نہیں باندھتی۔ میقات سے احرام باندھنے میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ کی حدیث میں آتا ہے کہ حضرت آسما بنت عمیسؓ کا میقات کے قریب بچہ پیدا ہوا۔ تو آپﷺنے فرمایا کہ وہ کپڑے سے لنگوٹ باندھ لے۔ اور غسل کرنے اور حج کرنے کا حکم دیا۔
یہاں ایک مسلۂ ہے۔ جس کے بارے میں اکثر پوچھا جاتا ہے۔ کہ کیا قربانی کے لوازمات میں سے ہے کہ عورت اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کریگی۔ نہیں قربانی کے لوازمات میں سے نہیں ہے کہ عورت اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کریگی۔ بعض عورتیں کہتی ہیں کہ اگر کنگھی کرے تو ان کے بال گرتے ہیں۔ تو ہم کہتے ہیں کہ کنگھی کرنے سے کوئی منع نہیں ہے۔کنگھی کرے۔ آپکو اختیاری طور پربال کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی کاٹنا یا حلق کرانا یا نوچنا وغیرہ۔ اور بالوں کو نا کھولنے کے بارے میں کوئی نص نہیں آئی کہ جو قربانی کریگا وہ کنگھی نہیں کریگا۔ بلکہ آپﷺنے حضرت عائشہؓ کو حکم کیا کہ وہ بالوں میں کنگھی کرے جب وہ احرام میں تھی۔ جس کا صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں ذکر ہے۔ آپﷺنے فرمایا کہ اپنے عمرہ کو توڑ دو اور بالوں کو کنگھی کرو۔ اور کنگھی کرنے سے کچھ بال گر جاتے ہیں۔ تو کنگھی سے کوئی منع نہیں ہے۔یہاں تک کے عمرہ لباس سے بھی منع نہیں ہیں۔اور ہر وہ چیز جو خوبصورتی کیلئے استعمال ہوتی ہو کوئی منع نہیں ہے ۔ اور نہ قربانی میں کوئی اثر کرتا ہے۔
یعنی لوگ ان باتوں کیوجہ سے قربانی نہیں کرتے۔میں اپنے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ چند ہی تو دن ہے گزر جاتے ہے ہمیں چاہیئے کہ ان دنوں میں بندگی کہ اس معنی کو محسوس کرے۔ اور ہمیں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھنی چاہیئے۔جن امور سے منع کیا گیا ہے اس میں چاہے ہمارے اوپر ہفتے گزر جائے یا بعض لوگ کے اوپر مہینہ یا اس سے بھی زیادہ اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ بال کاٹنے ہیں۔ لیکن جب منع آیا تو سوال زیادہ ہوگئے۔ کہ کرے یا نہ کرے