حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت شفاء حاصل کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اور روزانہ خاص طور پر سورۂ بقرہ کی تلاوت شفاء حاصؒ کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے؟
قراءة الحائض للقرآن بنية الاستشفاء
حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت شفاء حاصل کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اور روزانہ خاص طور پر سورۂ بقرہ کی تلاوت شفاء حاصؒ کرنے کی نیت سے کرنے کا کیا حکم ہے؟
قراءة الحائض للقرآن بنية الاستشفاء
الجواب
امابعد
جہاں تک حائضہ کے قرآن کی تلاوت کی بات ہے تو اس میں علماء کے دو قول ہیں ، ایک اہل علم کی جماعت نے کہا ہے کہ حائضہ قرآن کی بالکل تلاوت نہیں کرسکتی نہ ہی مصحف سے اور نہ ہی زبانی اور انہوں نے استدلال کیا ہے احمد اور اصحاب سنن کی روایت کردہ حدیث سے کہ عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایا:’’حائضہ اور جنبی بالکل قرآن نہیں پڑھ سکتے ‘‘ اور یہ حدیث ممانعت کے استدلال کے طور پر پیش کی جاتی ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے تو کہا: اہل علم کا اس کے ضعف پر اتفا ق ہے ، لہٰذا اگر یہ حدیث ضعیف ہے ، علوم حدیث کے علماء کے اتفاق سے تو اس سے حکم ثابت نہیں ہوتا، اسی وجہ سے علماء کا اختلاف ہوا تو بعض نے اسی حدیث کو لیا اوریہی قول مذاہب اربعہ کا علماء اور دیگر حضرات کا بھی ہے ۔
اور امام مالکؒ کا مذہب یہ ہے کہ اس کی ایک امام ابوحنیفہ سے بھی روایت ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اسے اختیا ر کیا ہے اور ابن تیمیہؒ اور اہل علم کی ایک جماعت بھی اسی کی قائل ہے کہ کوئی بات نہیں کہ حائضہ عورت مصحف کو چھوئے بغیر قرآن کی تلاوت کرے ، یعنی حفظاََ پڑھے کسی آلہ (موبائل وغیرہ) پر پڑھے کیونکہ یہ آلات قرآن کے حکم میں نہیں اور دیکھ کر پڑھے ، یاایسی صورت بناکر پڑھے کہ اپنے اور مصحف کے درمیان کو ئی چیز حائل ہو ، یا دستانے پہن لے یا اس کے علاوہ کوئی صورت ہو تو کوئی حرج نہیں ، لیکن وہ مصحف کو چھو کر نہیں پڑھ سکتی کیونکہ آپ ْﷺکا فرمان ہے کہ:’’قرآن کو پاکیزہ لوگ ہی چھوئے ‘‘۔
اس حدیث میں اگر چہ کلام ہوا ہے جیسا کہ ابن عبدالبر نے کہا ہے لیکن امت کا اس کو قبول کرنااور اس میں درج الکلمات کو لینااس با ت پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کوکوئی نہیں چھوئے گا مگر جو طاہر ہو۔ اور یہی جمہور علماء نے فرمایا اور ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔
اور امام داؤد اور ظاہریہ کا مذہب یہ ہے کہ قرآن کو چھونے سے منع کرنے کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں اور یہی اس مسئلہ میں دوسرا قول ہے اور یہ ایسا استدلال کرتے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے لیکن ابن عبدالبر کاامت کے اس حدیث کو قبول کرنے کے بارے میں کلام ہے اس کی سند میں کلام سے مستغنی کریتاہے جیسا کہ انہوں نے خود بھی فرمایا۔
دونوں اقوال میں سے ارجح یہ ہے کہ انسان بغیر طہارت کے قرآن کو مس کرنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی حاجت اس بات کی داعی ہو تو اس کا کچھ مختلف حکم ہے۔ اور چاہے کہ مباشرتاََ قرآن کو نہ مس کرے بلکہ اس کو اطراف سے پکڑے نہ کہ مکتو ب حروف کو چھوئے ۔ اور جہاں تک سورۂ بقرہ کی بات ہے تو اس کو پڑھنا باعث برکت ہے جیسا کہ نبیﷺفرمایا، ابوامامہؓ کی حدیث ہے ـ:’’روشن کردینے والیوں کی تلاوت کرویعنی بقرہ اور آل عمران کی، کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن شفاف بادلوں کی طرح آئیں گی اور پڑھنے والے پر سایہ کریں گی‘‘۔ اور ایک اور روایت میں ہے کہ :’’سورۂ بقرہ کی تلاوت کرو‘‘ (رواہ مسلم) کیونکہ ا س کو پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے اور باطل لوگ اس کو نہیں پڑھ سکتے ‘‘تو آپﷺنے فرمایاکہ سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا باعث برکت ہے اور اس کو چھوڑنا چھوڑدینے والے پر حسرت ہے ، چاہے اس نے تلاوت چھوڑی ہو یا اس میں مذکورہ احکام کو چھوڑاہو ۔
اور آپ ﷺکا فرمان ’’باطل لوگ‘‘ ا س سے مراد سحر کرنے والے ہیں کیونکہ سورۂ بقرہ میں سحر کے توڑ کی واضح آیات موجود ہیں ۔ اور کسی شخص کا اس سورت کو روزانہ پڑھنا اس کا اپنا فعل ہے لیکن یہ حدیث میں مذکور نہیں ۔ ہمارا یہ کہنا کہ فلاں عمل سنت ہے مشروع ہے یا یہ کہنا کہ جائز ہے یا یہ کہنا کہ بدعت ہے اس سب میں فرق ہے ۔ بدعت کی تعریف تو یہ ہے کہ دین میں کوئی نئی چیز پیدا کردینا جس کی کوئی اصل نہ ہو ، اور سنت وہ ہے جو نبیﷺسے قولاََ یا فعلاََ ثابت ہوئی ہو یا آپﷺسے کسی عمل کو دیکھ کرسکوت فرمایاہو۔ اور جہاں تک جائز یا مباح کی بات ہے تو اس سے مراد ہے کوئی ایسا عمل کرنا جس کی مشروعیت پر ادلہ کا عموم ہو یا جو عموم میں درج ہوتا ہو کوئی اس کی دلیل خاص نہ ہو اور علماء اس کی مثال تلبیہ سے دیتے ہیں جیسا کہ آپﷺکے صحابہ تلبیہ پڑھتے تھے اور کوئی ان کو منع نہیں کرتاتھا کوئی یہ الفاظ کہتا تھا :’’لبیک و سعدیک والخیر فی یدیک والرغباء الیک ۔۔۔الخ‘‘ آپﷺاس کو سنتے تو تھے اور یہ ایسے اذکار ہیں جو آپﷺنے نہیں کہے اور آپﷺنے اس سے زیادہ الفاظ نہیں کہے :’’لبیک اللھم لبیک ، لبیک لا شریک لک لبیک ، ان الحمد والنعمۃ ، لک والملک لا شریک لک‘‘۔
اورنسائی کی روایت میں ہے ’’لبیک الہ الحق‘‘ لیکن آپﷺدیگر تلبیہ کے الفاظ بھی سنتے تھے مگر منع نہیں کرتے تھے تو یہ اس بات کی دلیل ہوئی کہ وہ بھی مباح ہیں لیکن اس کو سنت نہیں کہا جائے گا کیونکہ آپﷺنے نہیں کہے اور نہ ہی یہ وارد ہوا ہے کہ آپﷺان الفاظ کے تلبیہ ہونے پر اقرارکیاہو تاکہ یہ کہا جاسکے کہ یہ وہ تلبیہ ہے جس پر آپﷺنے اقرار فرمایاہو کہ یہ سنت اقراریہ بن جائے