مسافر کے لئے سجدۂ تلاوت کا کیاحکم ہے؟
حكم سجود التلاوة للمسافر
مسافر کے لئے سجدۂ تلاوت کا کیاحکم ہے؟
حكم سجود التلاوة للمسافر
الجواب
حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:
اہلِ علم کا ایسے مسافر کے بارے میں اختلاف ہے جو نماز کے علاوہ آیتِ تلاوت سنتا ہے کہ کیا وہ اشارے سے سجدہ کرے گا یا نہیں؟ اس میں جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ اس کا رخ جس طرف بھی ہو اشارے سے سجدہ کرے گا، اس لئے کہ بخاریّ(۱۰۰۰)میں اور مسلم (۷۰۰) میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ :’’آپﷺسواری پر جس طرف ہوتے تسبیح اور وتر پڑھتے مگر آپﷺسواری پر فرض نماز نہیں پڑھتے تھے ‘‘۔ اور بعض حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک سواری پر اشارے سے اس کے لئے سجدہ کافی نہیں ہوگا اس لئے کہ اس طرح کرنے میں سجدۂ تلاوت کے بڑے ارکان کا فوت ہونا لازمی آتا ہے اور وہ پیشانی پر سجدہ کرنا ہے ۔لیکن ظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ جمہور کا مذہب ہی أقرب الی الصواب ہے اس لئے کہ حالتِ سفر میں نوافل کے رکوع و سجود اور سجدۂ تلاوت میں تخفیف ثابت ہے جو معنی میں ان دونو ں کے موافق ہے ۔ باقی رہی بات حالتِ قیام میں سوار کے لئے اشارے سے سجدۂ تلاوت کرنا تو اس کی تخریج حالتِ قیام میں سواری کی حالت میں نوافل پر ممکن ہے ، اہلِ علم کے اس میں دو اقوال ہیں: جمہور کے نزدیک حالتِ قیام میں یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس میں کوئی نص وار د نہیں ہے اور اصحابِ ظواہر اور بعض شافعی فقہاء کے نزدیک حالتِ قیام میں بھی جائز ہے لیکن جمہور کا مذہب ہی أقرب الی الصواب ہے ۔ واللہ أعلم۔
باقی رہی حالتِ سفر میں سواری پر نفل پڑھنے کی تو وہ جائز ہے اس لئے کہ حدیث اس پر دلالت کررہی ہے اور رکوع و سجود کو اشارے سے ادا کرسکتا ہے ۔
آپ کا بھائی
خالد بن عبد الله المصلح
27/03/1425هـ