اما بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:
اہلِ علم کی ایک جماعت (حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ اور بعض حنابلہ ) مساجد میں عقدِ نکاح کو مستحب قرار دیتی ہے لیکن عقد سے ان کی مراد یہ ہے کہ ایجاب عورت کے سرپرست کی طرف سے ہو اور قبول خاوند کی طرف سے ہو اور ان سب کا استدلال امام ترمذیؒ کی روایت کردہ حضرت عائشہؓ کی حدیث (۱۰۸۹) سے ہے وہ فرماتی ہیں کہ آپﷺکا ارشاد ہے :’’اس نکاح کا سب کے سامنے اعلان کرو اور(یہ رسم) مسجد میں اد کرواور اس میں دف بجاؤّ۔امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ضعیف قراردیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس باب میں یہ حدیث غریب اور حسن ہے اور اس حدیث کا راوی عیسی بن میمون ضعیف ہے ۔اور امام بخاریؒ نے ان کو حدیث کا منکر کہا ہے ، اور ابن حبانؒ کے فرماتے ہیں کہ یہ ساری موضوع روایات کو روایت کرتے ہیں ۔اس لئے جن لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ اس کو مستحب نہیں سمجھتے بلکہ وہ یہ علت نکالتے ہیں کہ نکاح اطاعت وعبادت ہے اس لئے اس کو مساجد میں مستحب سمجھا جاتا ہے کہ مساجد بھی عبادت گاہیں ہیں۔ لیکن جو بات میرے سامنے ظاہر ہوئی ہے تو وہ یہ کہ عقدِ نکاح مسجد میں مباح ہے جیسا کہ حنابلہ کا مذہب ہے ۔
بہر کیف ! چاہے ہم مساجد میں عقدِ نکاح کے استحباب کا کہیں یا اس کی اباحت کا بہر صورت مساجد کوہرقسم کے لہوولعب سے محفوظ رکھنا ہے اور ہر اس چیز سے جو نمازیوں کے لئے ایذا رساں ہواس لئے کہ مساجد ان کاموں کے لئے نہیں بنائی گئیں بلکہ یہ تو اللہ جل جلالہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت کے لئے بنائی گئیں ہیں۔پس میرے خیال میں یہی مناسب لگتا ہے کہ ایک دوسرے کی ہر اس کام میں باہم نصیحت اور تعاو ن کیا جائے جس میں مساجد کی حفاظت ہو اور اگر کوئی اصلاح نہ کرسکتاہو تو پھر اسے کوئی ایسی مسجد تلاش کرنی چاہئے جس میں وہ نماز پڑھ سکے اگر اس میں کوئی فساد واقع نہ ہور ہا ہے اس لئے کہ یہ ایک مسجد سے دوسری مسجد منتقل ہونے کے فساد سے زیادہ فسا دہے ۔ واللہ أعلم۔