’’جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ اس حدیث کی صحت کا کیا درجہ ہے؟ اللہ آپکو جزائے خیر دے !
صحة حديث: ((من لم يوتر فليس منا
’’جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ اس حدیث کی صحت کا کیا درجہ ہے؟ اللہ آپکو جزائے خیر دے !
صحة حديث: ((من لم يوتر فليس منا
الجواب
حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اس حدیث کی تخریج امام احمدؒ اور امام ابو داؤدؒ نے عبد اللہ بن بریرہؓ کے طریق سے ان کے والد سے کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا: ’’وتر حق ہے پس جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔
یہ عبید اللہ بن عبد اللہ عتکی کے طریق سے عبد اللہ بن بریرہ عن ابیہ سے روایت کردہ حدیث ہے جس کو مستدرک میں حاکم نے صحیح قرار دی ہے جبکہ ابن الجوزی نے ضعیف قرار دی ہے (العلل المتناھیۃ ۱/۴۴۷) میں ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ عتکی کے پاس صرف منکر روایات ہیں۔
اور ابن حبانؒ فرماتے ہیں کہ عتکی مقلوبہ اشیاء کے ساتھ ثقہ راویوں سے متفرد ہیں۔
اور علامہ حافظ بن حجرؒ (تلخیص حبیر ۲/۲۰) میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں عبید اللہ بن عبد اللہ عتکی الغرماء ابو المنیب ہیں جن کو امام بخاریؒ اور امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اور (بلوغ) میں ان کے بارے میں فرمایا کہ ابو داؤد نے ان کو ضعیف السند قرار دیا ہے اور امام حاکم نے ان کو صحیح قرار دیا ہے اور ابو ہریرہؓ سے انہوں نے روایت مروی کی ہے وہ امام احمد کے ہاں ضعیف ہے۔
الغرض: آپ نے جس حدیث کے متعلق پوچھا ہے وہ حدیث ضعیف ہے،باقی اللہ بہتر جانتا ہے