حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ
صرف مال کی وجہ سے آ پ کا اپنے بھائی کے ساتھ قطعِ تعلق کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ آپ کو چاہئے کہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کریں اس لئے کہ یہ تو وہ رشتہ ہے جس میں صلہ رحمی واجب ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’پھر اگر تم نے جہاد سے منہ موڑا تو تم سے کیا توقع رکھی جائے ؟ یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ اور اپنے خونی رشتے کاٹ ڈالو، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ، چنانچہ انہیں بہرا بنادیا ہے اور ان کی آنکھیں اندھی کردی ہیں ‘‘۔ (محمد:۲۳/۲۲)۔
اور آنحضرتﷺکا بھی ارشادگرامی ہے : ’’جو شخص بھی اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ صلہ رحمی کرے‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے ۔
ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ سے مروی ہے : ’’صلہ رحمی عرشِ الٰہی کے ساتھ لٹکی رہتی ہے اور ہر وقت یہ کہتی رہتی ہے کہ جس نے مجھے جوڑا اسے اللہ جوڑدے اور جس نے مجھے توڑا اسے اللہ توڑدے‘‘۔
ایک آدمی اللہ کے رسولﷺکے پاس آکر عرض پرداز ہوا : میرے بعض رشتہ دار ہیں میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں جبکہ وہ میرے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں ، میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتا ہوں جبکہ وہ میرے ساتھ برا سلوک برتتے ہیں ، میں ان کے ساتھ بردباری کا معاملہ کرتاہوں جبکہ وہ اپنا اجڈ پن دکھاتے ہیں ، لہٰذامیں کیا کروں؟ اللہ کے رسولﷺنے یہ سن کر ارشاد فرمایا: اگر معاملہ واقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے چہروں پر راکھ مَل رہے ہو ، اور جب تک تم اس طرح کرتے رہوگے تب تک اللہ تعالیٰ کی معاونت ان کے خلاف تمہارے ساتھ رہے گی ۔
یہ ساری نصوصِ شرعیہ صلہ رحمی کے وجوب اور قطع رحمی کی حرمت پر دال ہیں ، لیکن بغیر کسی قطع رحمی اور بدسلوکی کے یہ سب آپ کو اپنے حق سے نہیں روکتے ، اور میں یہاں آ پ کو اللہ کے رسولﷺکا وہ ارشاد گرامی بھی سنانا چاہتا ہوں جس کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے نقل کیا ہے کہ کسی مسلمان کے یہ شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ تین دن زیادہ قطع کلامی کرے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ان تمام باتوں کی توفیق دے جن میں اللہ تعالیٰ کی پسند اور خوشنودی شامل ہو ۔