حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
اس بارے میں علماء کے اقوال متعدد ہیں، اور اختلاف ہوا بھی وہاں ہے جہاں کسی بھی وجہ سے ترجیح قائم کرنا مشکل ہو، جیسے دلائل کو دیکھتے ہوئے یا علم تقوی یا دیگر امور کے اعتبار سے مفتی کے حالات دیکھتے ہوئے، حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ میں علماء کے تین اقوال ہیں:
پہلاقول: سب سے زیادہ شدت والا قول لے گا۔
دوسرا قول: سب سے زیادہ سہولت والا قول لے گا۔
تیسرا قول:دو یا دو سے زیادہ اقوال میں اختیار ہے۔
جو مجھے راجح معلوم ہو رہا ہے وہ یہ کہ اگر حالت ایسی ہو جیسے آپ نے ذکر کیا تو عامی آدمی کیلئے یہ ہے کہ وہ اقوال میں سے سب سے زیادہ سہولت والا قول اختیار کرے، کیونکہ شریعت کی بنیاد سہولت پر ہی ہے، فرمان باری تعالی ہے: ((اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، اور وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا)) {البقرہ: ۱۸۵} اور نبی ﷺکا فرمان ہے: ((مجھے ایسی شریعت دے کر بھیجا گیا ہے جو سیدھی اور آسان ہے)) جیسا کہ مسند احمد میں حضرت عائشہؓ کی حدیث میں آیا ہے ایسی سند کے ساتھ جس میں کوئی حرج نہیں۔
مسند میں ہی صحیح سند کے ساتھ بھی اعرابی والی حدیث موجود ہے جس کا نام نہیں ذکر کیا گیا کہ اس نے نبی ﷺکو کہتے سنا: ((تمہارا بہترین دین سب سے آسانی والا ہے))، اور یہ کہ نبی ﷺکو جب بھی دو امور میں اختیار دیا جاتا تو ان میں سے آسانی والا اختیار کرتے جیسا کہ صحیحین میں عائشہؓ کی حدیث میں وارد ہوا ہے۔
لیکن ملحوظ یہ رکھنا چاہئیے کہ یہ اس صورت میں ہے جب دو مختلف اقوال سامنے ہوں اور ترجیح قائم نہ کی جا سکتی ہو، تاکہ صورتحال میں تتبع رخص نہ پیدا ہو جائے جس کے عدم جواز پر علماء کا اجماع ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ حسب امکان حق کی اتباع ہو، واللہ اعلم۔
آپ کا بھائی/
خالد بن عبد الله المصلح
04/09/1424هـ