حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
فوٹوگرافک تصویر کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ ایسی فوٹوگرافک تصویر جو ذی روح کی ہو کیا وہ اس تصویر میں شمار ہو گی جس کی حرمت کے بارے میں احادیث آئی ہیں یا نہیں؟
پہلا قول: فوٹوگرافک تصویر حرام ہے، بالکل جائز نہیں سوائے اس صورت کے جب ضرورت پڑے یا کوئی مصلحت عامہ اس کا تقاضا کر رہی ہو، علماء کی ایک جماعت کا یہی کہنا ہے جن میں شیخ محمد بن ابراہیم، شیخ عبد العزیز بن باز اور شیخ البانی ؒ شامل ہیں۔
دوسرا قول: یہ کہ فوٹوگرافک تصویر جائز ہے، حرمت والی احادیث کے تحت داخل نہیں، ہمارے شیخ محمد بن عثیمین اور شیخ محمد بن نجیب المطبعی ؒ کا یہی کہنا ہے۔
پہلی فریق نے استدلال ان احادیث کے عموم سے کیا ہے جن میں حرمت وارد ہوئی ہے، اور یہ کہ فوٹوگرافک تصویر بھی انہیں تصاویر کی طرح کی ایک تصویر ہے جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں لہذا یہ آپ ﷺکے اس قول میں داخل ہو گی: ((قیامت کے دن سب سے شدید عذاب والے تصویر کشی کرنے والے ہوں گے)) یہ حدیث صحیحین میں ابن مسعود ؓ سے مروی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی احادیث وارد ہوئی ہیں۔
جواز اور اباحت کا کہنے والے حضرات نے جواب یہ دیا ہے کہ نصوص شرعیہ جو تصویر کی حرمت کے بارے میں ہیں ان میں حرمت اس لئے آئی ہے کہ ہاتھ سے نقش کرنے میں اللہ تعالی کی صفت تخلیق میں برابری اور مماثلت کا شائبہ آتا ہے، جبکہ فوٹوگرافک تصویر میں ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ تو در حقیقت اللہ تعالی کہ مخلوق کہ تصویر بنانا ہے نہ کہ تخلیق میں اس کہ مشابہ ہونا۔
مجھے راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ فوٹوگرافک تصویرحرمت والی احادیث میں داخل نہیں ہوتی کیونکہ اس میں اللہ تعالی کہ تخلیق میں مشابہت نہیں پائی جا رہی، بلکہ اس میں تو صرف اتنا ہے کہ یہ اللہ تعالی کہ مخلوق کو تصویر میں محفوظ کرنا ہے جس میں انساس کا نقش کے اعتبار سے کوئی دخل نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے آئینے میں یا پانی میں تصویر نظر آتی ہے۔
اور جہاں تک ملائکہ کو داخل ہونے کی بات ہے تو بخاری اور مسلم میں ابو طلحہؓ کی حدیث وارد ہوئی ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((جس گھر میں تصویر ہو یا کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے)) بخاری کی بعض روایات میں ہے: ((جہاں مورتیوں کی تصاویر ہوں))، اور بخاری نے ابن عمرؓ سے روایت کی ہے: ((رسول اللہﷺسے جبرئیل نے وعدہ کیا کے وہ آئیں گے، اس حدیث میں ہے کہ جبرئیل نے کہا: ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو یا تصویر ہو))۔ تو یہ اس صورت پر محمول ہے جہاں حرام تصاویر ہوں۔ جہاں تک ان تصاویر کی بات ہے جو حرام نہیں ہیں چاہے وہ سایہ دار ہو یا منقوش ہوں جیسے بچیوں کی گڑیاں یا روندی گئی تصاویر تو حدیث سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی تصاویر فرشتوں کو داخل ہونے سے نہیں روکتیں، کیونکہ نبی ﷺنے حضرت عائشہؓ کی گڑیوں کو رہنے دیا، صحیحین میں عائشہؓ کی حدیث ہے فرماتی ہیں: ((میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی تو میری سہیلیاں بھی آ جاتیں، جب رسول اللہ ﷺداخل ہوتے تو وہ سب فرار ہو جاتیں تو آپ ﷺان کو پکڑ کر واپس میرے پاس لے آتے))، ایسا ہی مضمون ابو طلحہ ؓ کی حدیث میں ہے جسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے زید بن خالد سے مروی ہے کہ انہیں بسر بن عبیداللہ الخولانی ؓ نے بتلایا ، یہ وہ ہیں جو حضرت میمونہؓ کے گھر میں تھے، کہتے ہیں کہ ابو طلحہؓ نے انہیں یہ حدیث سنائی ، کہ نبی ﷺنے فرمایا:((فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر ہو))، کہتے ہیں : پھر زید بیمار ہو گئے اور ہم ان کی عیادت کیلئے گئے، جب ہم ان کے گھر میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پردہ ہے جس پر تصاویر بنی ہیں تو میں نے عبیداللہ الخولانی سے پوچھا: کیا ہمیں انہوں نے تصویر کے بارے میں حدیث نہیں سنائی تھی تو وہ کہنے لگے: کپڑے پر نقش کی گئی تصویر مستثنی ہے، کیا یہ آپ نے نہیں سنا تھا؟ میں نے کہا نہیں تو کہنے لگے: انہوں نے یہ ذکر کیا تھا۔
تو فوٹوگرافک تصویروں میں سے جس کی تعظیم کی جائے اور اونچی جگہ رکھا جائے تو میرے رائے کے مطابق یہ بھی حرام کے ساتھ ہی لاحق ہو گی کیونکہ اس میں ایسی تعظیم پائی جا رہی ہے جو شرک کی طرف داعی ہے، ہاں جو تصویر شیلف پر رکھی ہو یا بٹوے وغیرہ میں پڑی ہوتو یہ حرام نہیں ہونی چاہئیے چاہے یاد گار کے طور پر ہو یا ویسے ہی ہو، باقی اللہ تعالی بہتر جانتے ہیں۔
جہاں تک ڈیجیٹل تصویر کی بات ہے تو وہ بھی اختلاف کے اعتبار سے فوٹوگرافک تصویر ہی کی طرح ہے، اگرچہ ایک جماعت ایسی بھی ہے جو فوٹوگرافک تصویر کو تو حرام کہتے ہیں لیکن ڈیجیٹل تصویر کو جائز کہتے ہیں اور یہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ تصویر نہیں صرف عکس محفوظ کرنا ہے جس میں نقش کرنے میں انسان کا کوئی دخل نہیں تو یہ بھی آئینے ہی کی طرح ہے، اکثر اہل علم کا یہی کہنا ہے، اس کے جواز میں یادگار کے طور پر رکھنے یا ویسے رکھنے کا کوئی فرق نہیں، واللہ اعلم
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
21/09/1425هـ