تمام مخلوقات کیلئے سور پھونکے جانے کے اعتبار سے نفخہ صعق (بے ہوش کرنے والے نفخہ) اور نفخہ بعث (دوبارہ زندہ کئے جانے والے نفخہ) کے درمیان کتنا زمانی فاصلہ ہو گا؟
ما مقدار المدَّة بين نفخة الصَّعق ونفخة البعث لجميع الخلائق؟
تمام مخلوقات کیلئے سور پھونکے جانے کے اعتبار سے نفخہ صعق (بے ہوش کرنے والے نفخہ) اور نفخہ بعث (دوبارہ زندہ کئے جانے والے نفخہ) کے درمیان کتنا زمانی فاصلہ ہو گا؟
ما مقدار المدَّة بين نفخة الصَّعق ونفخة البعث لجميع الخلائق؟
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
تمام مخلوقات کی سور کے ذریعے موت اور دوبارہ زندہ کئے جانے کی درمیانی مدت بخاری اور مسلم کی روایت کردہ حدیث میں مذکور ہے جو کہ ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((دونوں نفخوں کے درمیان یعنی موت کے نفخے اور دوبارہ زندہ کیا جانے کے نفخے کے دوران چالیس ہیں، پھر آسمان سے پانی برسے گا اور لوگ ایسے اٹھیں گے جیسے ترکاری اگتی ہے اور انسان کا کوئی حصہ ایسا نہیں بچے گا جو بوسیدہ نہ ہو گیا ہو سوائے عجب الذنب کے (ریڑھ کی ہڈی کے نیچے کی ایک ہڈی) روز قیامت اسی سے مخلوقات کو دوبارہ بنایا جائے گا)) بخاری میں مروی ہے کہ ابو ہریرہ ؓ سے سؤال کیا گیا کہ اے ابو ہریرہ چالیس دن؟ کہنے لگے: مجھے نہیں معلوم، کہا: چالیس سال؟ کہنے لگے: مجھے نہیں معلوم، کہا: چالیس مہینے؟ کہنے لگے: مجھے نہیں معلوم، ابوہریرہؓ نے مدت کی تعیین نہیں کہ کہ وہ چالیس سال ہیں چالیس دن یا چالیس مہینے، گویا کہ انہوں نے یہ نبی ﷺسے سنا ہی نہیں، تو جب سنا نہیں تو توقف اختیار کیا اور جتنا سنا اسے بہت ہی اچھے انداز میں بیان کر دیا، بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اس سے مراد چالیس سال ہیں لیکن یہ روایات صحیح نہیں ہیں، لہذا ہم کہیں گے کہ مرنے اور دوبارہ زندہ کیے جانے کے درمیان کی مدت چالیس کی ہے اور اس کی تعیین کے بارے میں توقف اختیار کریں گے، اور جہاں تک اس مدت کی تفسیر کا تعلق ہے تو ظاہر تو یہ ہے کہ یہ مدت دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کے درمیان فاصل ہے تاکہ دونوں زندگیاں ایک دوسرے سے جدا ہو سکیں، اور جہاں تک اس کے چالیس تک ہونے کی علت کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے واضح بیان نہیں آیا اور صحابہ اور تابعین ؒ نے بھی اس بارے میں کچھ کلام نہیں کیا لہذا جہاں ان سب نے توقف کیا وہاں ہم بھی توقف کریں گے، اور اس مدت کی علت بیان کرنے کے بارے میں اپنی رائے دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے امور میں رائے نہیں دی جاتی