ہم قرآن کیسے سمجھیں؟
كيف نفهم القرآن؟
ہم قرآن کیسے سمجھیں؟
كيف نفهم القرآن؟
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
یہ بات جان لیں کہ اللہ تعالی نے جیسے اپنے بندوں پر یہ کتاب نازل کر کے اور اس کی حفاظت کر کے احسان کیا ہے فرمایا: ((ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں)) [الحجر:۹] اسی طرح اللہ نے اس کو بیان کرنے کی بھی ذمہ داری لی ہے اور فرمایا ہے: ((پھر ہم پر اس کو بیان کرنا ہے)) [القیامہ:۱۹] اور کتاب اللہ کو بیان کرنا اور اس کی وضاحت کرنا یہ رسول اللہ ﷺکے ذمے داری ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ((اور ہم نے آپ پر یہ نصیحت نازل کی تاکہ آپ لوگوں کیلئے بیان کریں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ سوچ بچار کر یں)) [النحل:۴۴]
تو اگر ہم قرآن کو سمجھنا چاہیں اور اس کی تفسیر چاہیں تو اس سے صحیح اور سیدھا طریقہ اس کیلئے یہ ہے کہ ہم قرآن کی تفسیر قرآن سے ہی کریں، کیونکہ بہت سی اخبار اور احکام چاہے علمی ہوں یا عملی اللہ تعالی نے کسی جگہ پر اجمالاََ ذکر کئے ہیں اور کسی دوسری جگہ پر مفصلاََ ذکر کئے ہیں، اب اگر تفسیر القرآن بالقرآن ممکن مشکل ہو جائے تو سنت میں بحث و تلاش کریں گے اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور ہم نے آپ پر یہ نصیحت نازل کی تاکہ آپ لوگوں کیلئے بیان کریں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ سوچ بچار کریں)) [النحل:۴۴] یہ آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ رسولﷺکی ذمے داری ہے یہ کہ وہ کتاب اللہ کو بیان کریں، لہذا سنت قرآن کو بیان کرتی ہے اور اس کی تفسیر کرتی ہے تو ہم پر یہ واجب ہے کہ کلام اللہ کی تفسیر میں ہم سنت پر اعتماد کریں کیونکہ نبی ﷺاللہ تعالی کی مراد سب سے زیادہ جانتے ہیں، فرمان باری تعالی ہے: ((تمہارے یہ صاحب نہ گمراہ ہوئے ہیں نہ بھٹکے ہیں،اور یہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ یہ تو بس وحی ہی ہے جو اپ پر بھیجی جاتی ہے)) [النجم:۲،۳،۴] آپ ﷺکا فرمان ہے: {اللہ کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ تم سب میں اللہ کی سب سے زیادہ خشیت رکھنے والا ہوں اور جس چیز سے مجھے بچنا ہے اس بارے میں تم سب میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہوں} رواہ مسلم، اب اگر ہم کلام اللہ کی تفسیر نہ قرآن میں پائیں نہ سنت میں تو صحابہ ؓ کے اقوال کی طرف رجوع کریں گے ان اقوال کی طرف جو تفسیر کلام اللہ کے بارے میں وارد ہوئے ہیں کیونکہ صحابہ ؓ کلام میں تمام لوگوں سے زیادہ فصیح تھے اور ایمان میں سب سے زیادہ قوی تو وہی لوگ کلام اللہ کا بھی سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے قرآن کو اترتے دیکھا اور رسول اللہﷺسے علماََ بھی اور عملاََ بھی براہراست اس کی تفسیر سنی اسی لئے ان میں سے بعض نے قسم بھی کھائی کہ اگر اسے کتاب اللہ کو اس سے بھی زیادہ جاننے والا مل گیا تو وہ اس کے پاس سیکھنے کیلئے جائے گا تو یہ ان کے کتاب اللہ کے علم اور فہم کی گہرائی پر دلالت کر رہا ہے۔
اب اگر کلام اللہ کی تفسیر اقوال صحابہ ؓمیں بھی نہ ملے تو ہم تابعین کے اقوال میں تلاش کریں گے جنہوں نے صحابہ ؓ سے علم حاصل کیا کیونکہ وہ ہم سے کہیں زیادہ علمی گہرائی رکھنے والے ہیں اور علم انہوں نے ان سے لیا جنہوں نے براہ راست رسول اللہ ﷺسے لیا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ لغت اور اس کے معانی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور قرآن نازل بھی واضح عربی زبان میں ہوا تو وہ انسان جو عربی بہترین جاننے والا ہوتا وہ کلام اللہ کو بھی بہترین جاننے والا ہوتا۔
ابن کثیر ؒ نے مذکورہ بالا مراتب تفسیر بیان کرنے کے بعد اپنی تفسیر میں لکھا ہے(۱۰/۱): ’’قرآن کی تفسیر صرف اپنی رائے سے کرنا حرام ہے‘‘ اسی بنیاد پر یہ کہا جائے گا کہ قرآن وسنت کے ساتھ تجرباتی و مادی علوم میں بحث کرنے والے بہت سے علماء جو کچھ کرتے ہیں کوئی عالم بھی اس میں شک نہیں رکھتا کہ یہ حد سے تجاوز ہے اور کلام اللہ پر ایک جرم ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں آیت یا حدیث کے موافق کوئی معنی سمجھ میں آتا ہے جس کے وہ متلاشی ہوتے ہیں علوم طب یا علوم طبیعت کے اعتبار سے، تو یہ لوگ حسن نیت سے ہی یہ کہتے ہیں: کہ قرآن اس نظریہ اور اس حقیقت کو بہت پہلے لے کر آیا اور اسے اعجاز کے تحت درج کرتے ہیں، کاش یہ تحقیق کرنے والا عالم جب اسے یہ علمی نکتہ ملا تو اہل علم سے مراجعت کرتا اور اپنی فہم کے مطابق جو اسے حاصل ہوا وہ ان کے سامنے پیش کرتا اور ان سے مناقشہ کرتا تاکہ اس بارے میں اس کیلئے امر بالکل واضح ہو جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ عام طور پر بہت جلدی کرتے ہیں اور کلمات کو تحریف کا شکار بناتے ہیں یا اس پر محمول کرنے لگتے ہیں جس کا اس میں احتمال نہیں پایا جا رہا ہوتا اور یہ سب کتاب و سنت کے جاننے والے علماء کی مراجعت کے بغیر ہوتا ہے