کیا عیسائیوں کی تعزیت کرنا یا تعزیت کیلئے ان کے گھروں میں جانا جب ان کے اہل میں سے کوئی فوت ہو گیا ہو جائز ہے؟ اور شرکت کیلئے ان کے کلیساؤں میں جانا جائز ہے؟
حكم تعزية أهل الكتاب
کیا عیسائیوں کی تعزیت کرنا یا تعزیت کیلئے ان کے گھروں میں جانا جب ان کے اہل میں سے کوئی فوت ہو گیا ہو جائز ہے؟ اور شرکت کیلئے ان کے کلیساؤں میں جانا جائز ہے؟
حكم تعزية أهل الكتاب
الجواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہیں۔
اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے، متعدد اقوال ہیں:
اصح قول یہ ہے کہ ان کے علاوہ جن سے جنگ جاری ہو اہل کتاب کی تعزیت کرنا جائز ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی یا انصاف کا معاملہ کرو یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)) [الممتحنہ:۸] یہ احناف، مالکیہ، شافعیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ کا مذہب ہے جبکہ ان کا مذہب مشہور حرمت کا ہے، لیکن اہل علم نے یہ کہا ہے کہ ان سے تعزیت کے وقت ان الفاظ کا چناؤ کیا جائے گا جن سے تسلی دینے کا مقصود تو حاصل ہو جائے لیکن ان کیلئے ثواب کا یا ان کی مصیبت پر اجر ملنے کا سؤال نہیں ہو، کیونکہ ان کے لئے اجر و ثواب جیسا کچھ نہیں ہے جیسے اللہ تعالی نے فرمایا: ((اور انہوں نے جو عمل کیا تھا ہم نے آکر اسے بکھری ہوئی خاک کی طرح بنا دیا)) [الفرقان:۲۳] لہذا کافر چاہے زندہ ہو یا مر گیا ہو اس کیلئے دعا نہیں کی جائے گی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((نبی اور ایمان والوں کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے استغفار کریں اگرچہ وہ ان کے قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ وہ لوگ آگ والوں میں سے ہیں)) [التوبہ:۱۱۳]۔
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
19/11/1424هـ