تعزیت کیلئے بیٹھنے کا کیا حکم ہے؟
حكم الجلوس للتعزية
تعزیت کیلئے بیٹھنے کا کیا حکم ہے؟
حكم الجلوس للتعزية
الجواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہیں۔
میت کے بعد اس طرح سے بیٹھنا کہ اہل میت ایک جگہ اکٹھے بیٹھ جائیں اور لوگ تعزیت کیلئے ان کے پاس آئیں اس میں اہل علم کا اختلاف ہے، دو قول ہیں:
پہلا قول: یہ مکروہ ہے کیونکہ یہ سلف کے عمل کے خلاف ہے اور اس میں غم کی بار بار تجدید ہوتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آپ ﷺکے اس قول کے تحت آتا ہے جو بخاری اور مسلم میں عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:((جس نے ہمارے دین میں کچھ نیا شروع کیا تو وہ مردود ہے)) شافعیہ اور حنابلہ کا مذہب یہی ہے اور اگر مسجد میں ہو تو حنفیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
دوسرا قول: یہ جائز ہے اور اس جواز کا استدلال بخاری (۱۲۱۶) اور مسلم (۹۳۵) کی روایت سے ہے کہ حضررت عائشہؓ فرماتی ہیں: جب نبی ﷺکو زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ ؓ کے قتل کی خبر ملی تو غمگین ہو کر بیٹھ گئے اور ابو داؤد کی روایت میں ہے ((غمگین حالت میں مسجد میں بیٹھ گئے آپ کے چہرے سے غم واضح تھا)) یہ احناف، مالکیہ کا مذہب ہے اور امام احمد کی بھی ایک روایت ہے اور امام بخاری نے اس پر باب بھی باندھا ہے: مصیبت کے وقت غمگین ہو کر بیٹھے فرد کے بارے میں باب۔
تیسرا قول: یہ حرام ہے جائز نہیں، احمد (۶۸۶۶) اور بن ماجہ (۱۶۱۲) میں جریر بن عبد اللہ البجلی سے مروی ہے کہتے ہیں: ہم اہل میت کے پاس جمع ہونے کو اور دفن کے بعد کھانے کے انتظامات کو نوحہ میں شمار کرتے تھے۔ امام ابو داؤد نے احمد سے نقل کیا ہے: میری نظر میں اس حدیث کی کوئی اصل نہیں یہ حدیث ضعیف ہے حجت نہیں بن سکتی اور اگر اسے صحیح مانا بھی جائے تو یہ ایک مجموعی صورت حال پر محمول ہوگی نہ کہ محض اکٹھے ہونے پر ، بعض اہل علم کا یہی کہنا ہے۔
مجھے یہ راجح معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ بیٹھنا بدعات سے خالی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں خاص طور پر اگر لوگ تعزیت کیلئے صرف اسی صورت میں آتے ہوں، واللہ اعلم